ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن
ایک دو تین چار حد کردی
جے آئی ٹی کی تحقیقات جن دنوں جاری تھیں اور روزانہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی فیملی کے اثاثوں کی ہوش ربا تفصیلات سامنے آرہی تھیں سب حیران تھے کہ حد کردی۔ تعجب ہوتا تھا جب نواز شریف اور ان کے بچے سوال کرتے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟
پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
عدلیہ کے فیصلے کے بعد سب سوال کر رہے ہیں کہ عدلیہ نے کیا کیا ہے؟ دھاندلی نہ کرپشن نہ لوٹ مار محض اقامے کی بنیاد پر نا اہلی! جو رقم وصول ہی نہ کی گئی اس کی بنیاد پر نا اہلی۔ شادی شدہ خواتین کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ ان کی مہر کی جو رقم طے ہوئی تھی وہ اگر انہوں نے اب تک وصول نہیں کی تب بھی اس کا ذکر انکم ٹیکس گوشواروں میں ضرور کریں۔ اسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں آپ کے نام جس رقم کے جیتنے کا اعلان کیا جاتا ہے وہ بھی آپ کا اثاثہ ہے آپ وصول کریں یا نہ کریں۔ اس کا عدم اظہار بھی آپ کو ڈبو سکتا ہے۔ یہ نتیجہ ہے پارلیمنٹ کے اختیارات عدلیہ کو اور قانون کی کتابوں کے اختیارات ڈکشنری کو دینے کا۔ جب پٹھان کوئی شعر پڑھتا ہے تو جس طرح وہ شعر کسی کا نہیں رہتا اسی طرح جب عدالتیں سیاسی فیصلے کرتی ہیں تو وہ فیصلے بھی کسی کے نہیں رہتے۔
ایک طرف نوازشریف کے مداح ہیں تو دوسری طرف ان کے ناقد۔ نااہلی کے تیسرے دن جب نوازشریف نے پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کرپشن پر نا اہل نہیں ہوا۔ اس تنخواہ کو ڈکلیئر نہ کرنے پر نااہل ہوا ہوں جو میری جیب میں ہی نہیں آئی۔ اس جواب پر وہ لطیفہ یاد آگیا جس میں لڑکی والے لڑکے کو دیکھنے جاتے ہیں۔ ہوا یوں کہ رشتے کے سلسلے میں لڑکی والے لڑکے کو دیکھنے آئے تو ان کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ کافی دیر ہوگئی لیکن لڑکا نہ آیا۔ لڑکی والوں نے پوچھا ’’صاحب زادے کہاں ہیں‘‘ لڑکے کی ماں نے جواب دیا ’’دانت برش کر رہا ہے۔‘‘ کسی نے کہا ’’مگر اتنی دیر‘‘ ماں نے جواب دیا ’’دراصل پیاز کی بدبو چھڑانے میں دیر لگ جاتی ہے۔‘‘ کہا گیا ’’لگتا ہے پیاز کھانے کے بہت شوقین ہیں۔‘‘ ماں بولی ’’نہیں یہ بات نہیں۔ جب کبھی شراب پی لیتا ہے تو اس کی بُو مٹانے کے لیے پیاز کھانی پڑتی ہے۔‘‘ ایک خاتون بولیں ’’ہائے اللہ لڑکا شراب پیتا ہے‘‘ ماں نے جھٹ کہا ’’روز روز تھوڑی پیتا ہے وہ تو جب کبھی مجرا سننے جاتا ہے تو ایک دو گھونٹ پی لیتا ہے‘‘ اب تو لڑکی والوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کسی نے دریافت کیا ’’ماشااللہ صاحب زادے گانا سننے بھی جاتے ہیں۔‘‘ ماں بولی ’’آپ لوگ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میرا بیٹا گانا سننے کا شوقین نہیں ہے۔ دوستوں کے ساتھ ڈاکہ ڈالنے جاتا ہے تو کبھی کبھار بڑی رقم بھی ہاتھ لگ جاتی ہے بس اس وقت گانا سننے چلا جاتا ہے۔‘‘ ان تمام معلومات کے بعد لڑکی والوں نے لڑکے کی شادی کی اہلیت کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہوگا آپ سمجھ ہی گئے ہوں لیکن لڑکا اور اس کے گھر والے اہل محلہ اور رشتے داروں کو بتا رہے تھے کہ دیکھیے کیا زمانہ آگیا ہے محض پیاز کھانے پر لڑکے کے رشتہ کو انکار کردیا گیا ہے۔
بعض لوگوں کو عدالت عظمی کے حالیہ فیصلے پر 1925 کا امریکی عدالت کا فیصلہ یاد آگیا۔ اس زمانے میں ایل کپون شکاگو میں اطالوی مافیا کا باس تھا۔ اسے کرائم زار آف شکاگو کہا جاتا تھا۔ شراب کے غیر قانونی کاروبار کا وہ بادشاہ تھا۔ ہزاروں افراد کو لوٹنے، قتل کرنے اور دیگر جرائم میں ملوث تھا۔ لیکن یہ سب کچھ وہ اتنی چالاکی سے کرتا تھا کہ کہیں کوئی ثبوت نہ چھوڑتا۔ بالآخر انکم ٹیکس چوری کا ایک معمولی ثبوت پولیس کے ہاتھ لگ گیا۔ اس جرم میں اسے گرفتار کرلیا گیا۔ امریکی عدالت عظمیٰ کی گرینڈ جیوری نے انکم ٹیکس چرانے کے الزام میں اسے گیارہ برس کی سزا سنادی۔ فیصلے میں کہیں اس کے خوفناک جرائم کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نواز شریف کو محض اقامے کی بنیاد پر نااہل کیا گیا ہے۔ انہیں پارلیمنٹ، قوم اور عدالت کے سامنے دیے گئے بیانات میں تضادات، غلط بیانی، قطری شہزادے کا جھوٹا خط پیش کرنے، گلف اسٹیل، جدہ ملز اور لندن میں فلیٹس کی ملکیت کے ثبوت فراہم نہ کرنے، سوالات کے تسلی بخش جواب نہ دینے اور جھوٹ بولنے کی بناد پر نااہل قرار دیا گیا ہے۔ پانچ ججوں کا28 جولائی کا فیصلہ 20اپریل کے فیصلے کا تسلسل ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اقامے والی بات ایسی کوٹھوں چڑھی ہے کہ لاکھ کہا جائے کہ فیصلے کو ملا کر پڑھا جائے کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ نواز شریف کی مظلومیت کا تاثر گہرا ہورہا ہے۔ تاہم اس عدالتی فعالیت اور فیصلے کی سرگرمی کو ایک اور تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جس پر کھل کر بات کرنے کی کسی میں جرات نہیں۔ نواز شریف اور ان کے رفقا اور چمچے بھی اس حوالے پر محض اشاروں سے کام لے رہے ہیں۔ اقتدار بھی عجب چیز ہے۔ عجب مدہوش کردینے والی۔ جسم وجاں کرسی میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہوگئیں
نواز شریف محسوس ہی نہ کرسکے کہ ان کا اقتدار ختم کیا جارہا ہے۔ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں ان کی رخصت کا فیصلہ ہوچکا۔ کرشن چندر نے کہیں لکھا ہے کہ جب وہ کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو وہ اس کردار کو اپنے کسی افسانے میں لاکر مار دیتے ہیں۔ ہماری جانب سے اتنا اشارہ ہی قبول فرمائیے۔ دراصل ہمیں لا پتا ہونے سے ڈرلگتا ہے۔ وہ جو حکومت کو بھی تجارت کی طرح لیتے تھے نواز شریف اور ان کے بچے جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ کے بعد نیب میں بھی مشکل ہی سے بچ پائیں گے۔
نواز شریف کے جانے کے بعد خوشی کے جو مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایسے ہی مناظر 1999 میں بھی دیکھنے آئے تھے۔ اس وقت بھی نوازشریف کے جانے کی خوشیاں منائی گئی تھیں۔ اس مرتبہ یہ خوشی تحریک انصاف اور اس کے کارکنان تک محدود رہی۔ بہرحال 1999 میں گرم جوشی سے جنرل پرویزمشرف کا استقبال کیا گیا۔ پھر ہم نے پرویز مشرف کے جانے اور پیپلز پارٹی کے بر سر اقتدارآنے کی خوشیاں منائیں۔ زرداری صاحب کے جانے کے بعد ہم نے ایک بار پھر نواز شریف کے آنے کی خوشیاں منائیں۔ ہم نے آمریت کو بھی آزما لیا اور جمہوریت کو بھی، کرپشن اور بدعنوانی سے نجات نہ مل سکی۔ اس عفریت سے جان نہ چھوٹ سکی۔ چہرے بدل رہے ہیں لیکن حالات جوں کے توں بلکہ بد سے بدتر۔ وجہ یہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت نظام قائم ودائم رہتا ہے۔ کرپشن جس کا لازمی جزو ہے بلکہ یہ نظام خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں یہ نظام اچھی حکومتیں دینے میں ناکام ہوچکا ہے۔ پاناما پیپرز میں جن ملکوں کی نشاندہی کی گئی ہے، روس سے لے جنوبی امریکا تک جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں کرپشن ہے۔ کرپشن سے پاک اچھی حکومت صرف اسلامی نظام دے سکتا ہے۔ مداوا صرف اسلام کے پاس ہے۔ اسلام کے علاوہ سب رد ہے۔