فراخیِ رزق اور امن

244

zcl_muftiMuneebیوں تو انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں، خود ربّ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کرسکو گے، (ابراہیم:34)‘‘۔ لیکن نعمتِ حیات، نعمتِ ایمان اورنعمتِ علم وعمل کے بعد سب سے اہم نعمتیں دو ہیں: ’’رزق کی کشادگی اور امن‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر کے موقع پر اپنی نعمت اور دعائے ابراہیم کا ذکر فرمایا: ’’اور (یاد کیجیے!) جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مرجع اور امن کی جگہ بنایا اور (حکم دیا کہ) مقامِ ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم واسماعیل کو تاکید فرمائی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا: اے میرے پروردگار! اس کو امن والا شہر بنادے اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائیں، پھلوں سے رزق عطا فرما اور جس نے کفر کیا تو میں اُس کو بھی تھوڑا سا فائدہ پہنچاؤں گا اور پھر اُسے زبردستی جہنم میں ڈالوں گا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے، (البقرہ: 125-126)‘‘۔ قبولیتِ دعا کے اس موقع پر بھی ابراہیم علیہ السلام نے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کے بعد جن دونعمتوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، وہ رزق اور امن کی نعمتیں ہیں۔
اعلانِ نبوت سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں بھی قریشِ مکہ کا ذریعۂ معاش تجارت تھا اور وہ موسم کی مناسبت سے گرمیوں میں شام اور سردیوں میں یمن کا سفر کرتے تھے۔ اس زمانے میں منظّم حکومتیں نہیں تھیں اور بہت سے لوگوں کا ذریعۂ معاش ڈاکہ زنی اور لوٹ مار تھا، چنانچہ تجارتی قافلے لٹ جایا کرتے تھے۔ لیکن بیت اللہ کے منتظم ہونے کی وجہ سے قریش کے تجارتی قافلے محفوظ ومامون رہتے اور وہ بیت اللہ کی نسبت سے حاصل ہونے والے احترام کے سبب بے خوف وخطر تجارتی سفر کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ القریش میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا: ’’چوں کہ قریش گرمیوں اور سردیوں میں (تجارتی) سفر کے خوگر تھے، پس انہیں چاہیے کہ وہ اُس گھر کے ربّ کی عبادت کریں، جس (کی نسبت) نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف کے عالَم میں انہیں امن عطا کیا، (القریش: 1-4)‘‘۔ الغرض اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا مرکز اور اُس کی زمین پر سب سے پہلی عبادت گاہ اور پورے عالَم کے لیے جہتِ نماز ہونے کے علاوہ بیت اللہ کی جس نمایاں برکت کو اللہ تعالیٰ نے قریش اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے جتلایا، وہ رزق کی فراخی اور امن کی نعمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ’’اے ہمارے پروردگار! میں نے (تیرے حکم کے مطابق) اپنی بعض اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے نزدیک بے آب وگیاہ وادی میں ٹھیرا دیا ہے، اے ہمارے پروردگار! تاکہ وہ نماز کو قائم رکھیں اور تو (اپنی قدرت سے) بعض لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ وہ ان کی طرف مائل رہیں اور ان کو پھلوں سے روزی عطا کر تاکہ وہ شکر ادا کریں، (ابراہیم: 37)‘‘۔ قریش کے بعض سرداروں نے رسول اکرمؐ کے سامنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر ہم آپ کا ساتھ دیں تو عالَمِ عرب میں بیت اللہ کے منتظم ہونے کی وجہ سے ہمیں جو ایک خصوصی مقام اور رعایتیں حاصل ہیں، وہ ہم سے چھن جائیں گی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور انہوں نے کہا: اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اُچَک لیے جائیں گے، کیا ہم نے ان کواس حرم میں جو جائے امن ہے، آباد نہیں کیا، جس کی طرف ہمارے عطا کیے ہوئے ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں، لیکن اُن میں سے اکثر نہیں جانتے، (القصص: 57)‘‘۔
دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے بھوک اور خوف کو بعض صورتوں میں عذاب اور بعض صورتوں میں ذریعۂ آزمائش قرار دیا، ارشاد ہوا: ’’اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو (اپنے رہنے والوں کے لیے) جائے امن اور سراسر اطمینان والی تھی، وہاں ہر جگہ سے فراواں رزق آتا تھا، پھر (اُس کے رہنے والوں نے) اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تو اُن کے کرتوتوں کے سبب اللہ نے اُن کو بھوک اور خوف کے لباس کا مزا چکھادیا، (النحل: 112)‘‘۔ اس آیت کے کلماتِ مبارکہ میں محض بھوک اور خوف کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ ان دونوں چیزوں کو لباس سے تعبیر فرمایا، کیوں کہ لباس اپنے پہننے والے کے وجود کو گھیر لیتا ہے، یہاں لباسِ برہنگی وبے حیائی مراد نہیں ہے، بلکہ اُن اقدار کے حوالے سے ہے جہاں لباس ستر وحجاب اور حیا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ لباس پہنا جاتا ہے، چکھا نہیں جاتا، لیکن چوں کہ خوف اور بھوک کا لباس حسّی نہیں ہے بلکہ معنوی ہے، اس لیے یہ انسان کے انگ انگ، روئیں روئیں حتیٰ کہ پورے وجود اور روح میں سرایت کرجاتا ہے۔ چنانچہ بھوک اور خوف کو آزمائش قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور کچھ خوف اور بھوک اور مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے ہم لازماً تمہیں آزمائیں گے اور (اے رسول! ان آزمائشوں میں) صبر کرنے والوں کو بشارت دیجیے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ (بے صبری اور کم ہمتی نہیں دکھاتے بلکہ) کہتے ہیں: بے شک ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اُن کے ربّ کی طرف سے خصوصی نوازشیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پر ثابت قدم ہیں، (البقرہ: 155-157)‘‘۔
شیطان کا لوگوں کو گھیرنے کے لیے سب سے بڑا حربہ خوف ہی ہے، غزوۂ احد میں بہت سے منافقین خوف کے مارے پیچھے رہ گئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جس دن دو گروہوں کے ایک دوسرے کے مقابل محاذ آرا ہونے کی وجہ سے تم پر مصیبت آئی، تو یہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے کہ اللہ مومنوں کو (آزمائش کی بھٹی سے گزارکر) ممتاز کردے اور تاکہ (اسی طرح) منافقوں کو بھی ظاہر کردے اور اُن سے کہا گیا: آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا (اپنے شہر کا) دفاع کرو، تو انہوں نے کہا: اگر ہم جانتے کہ جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہاری پیروی کرتے اور اُس دن وہ ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، وہ اپنی زبانوں سے ایسی بات کہہ رہے تھے جو اُن کے دلوں میں نہ تھی اور اللہ اُن باتوں کو زیادہ جاننے والا ہے جن کو وہ چھپاتے تھے، یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو بیٹھے رہے اور انہوں نے اپنے (شہید ہونے والے) بھائیوں کے بارے میں کہا: اگر یہ ہمارا کہا مان لیتے تو قتل نہ کیے جاتے، (اے رسول!) آپ کہیے: اگر تم سچے ہو تو (مقررہ وقت پر) آنے والی اپنی موت کو ٹال دو، اور جو اللہ کی راہ میں قتل کردیے گئے، انہیں مردہ نہ گمان کرو، بلکہ وہ اپنے ربّ کے نزدیک زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جارہا ہے، اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں عطا فرمایا ہے، وہ اس پر خوش ہیں اور وہ اپنے بعد آنے والوں کے لیے جو ابھی اُن سے نہیں ملے، اس بشارت سے خوش ہورہے ہیں کہ اُن پر بھی نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، وہ اللہ کی طرف سے نعمت اور فضل پر خوشی منارہے ہیں اور بے شک اللہ اہلِ ایمان کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا، جن لوگوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور (اُس کے) رسول کی دعوت پر لبیک کہا، اُن میں سے نیکی کرنے والوں اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بڑا اجر ہے۔ ان لوگوں سے بعض لوگوں نے کہا تھا: تمہارے مقابلے میں بہت بڑا لشکر جمع ہوچکا ہے، سو تم اُن سے ڈرو، تو (خوف کے بجائے) اُن کا ایمان اور پختہ ہوگیا اور انہوں نے کہا: ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے، پس وہ اللہ کی نعمت اور اُس کے فضل سے لوٹ آئے اور انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور انہوں نے اللہ کی رضا کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے، یہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے کارندوں کے ذریعے ڈراتا ہے، سو تم اُن سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو، اگر تم (سچے) مومن ہو، (آل عمران: 166-175)‘‘۔
اس کے برعکس اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں اور ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کو بے خوف وخطر رہنے اور اُخروی نعمتوں کی بشارتیں دیتا ہے، فرمایا: ’’بے شک جن لوگوں نے (ایک بار) کہہ دیا: ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر وہ (اس پیمان پر) ثابت قدم رہے، تو اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور کہتے ہیں:) تم نہ کوئی خوف کرو اور نہ غم اور اُس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لیے اُس جنت میں ہر وہ نعمت ہے جس کی تمہارا دل خواہش کرے اور ہر وہ چیز دستیاب ہے جس کو تم طلب کرو، (یہ) بہت بخشنے والے بے حد رحم فرمانے والے (اللہ) کی طرف سے مہمانی ہے، (حم السجدہ: 30-31)‘‘۔ یہی یقین دہانی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے لیے فرماتا ہے: ’’سنو! بے شک اللہ کے اولیاء کو نہ آنے والی کسی بات کا خوف ہے اور نہ ہی گزشتہ کسی بات کا رنج وملال، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوے پر کاربند رہے، اُن کے لیے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی، اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، یہ بڑی کامیابی ہے، (یونس: 62 -64)‘‘۔