جمہوریت آبِ رواں ہے

305

zc_ArifBeharآمریت جوہڑ ہے جہاں وقت کا دھارا رک کر تعفن پیدا کرتا ہے اور جمہوریت آبِ رواں ہے جو اپنی متعین سمت اور معین رفتار کے ساتھ بہتا اور بہتا چلا جاتا ہے۔ یہاں افراد آتے اور اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہوتے ہیں۔ آمریت میں کسی حکمران کے مسند سے اترنے کے لیے انقلاب یا فرشتۂ اجل کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور لوگ حاکموں کے چہرے دیکھ کر تنگ آجاتے ہیں۔ نسلیں چہرے بدلنے کی امید میں کھپ جاتی ہیں۔ جمہوریت میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کل تک جس مسند پر میاں محمد نوازشریف براجمان تھے اب اس کرسی پرشاہد خاقان عباسی براجمان ہوگئے ہیں۔ پینتالیس دن بعد یہی کرسی کسی اور کے حصے میں آئے گی۔ کیوں کہ ملک کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے میاں نوازشریف کی عدالت سے نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ شاہد خاقان عباسی کا تعلق مری سے ہے اور وہ سابق وفاقی وزیر خاقان عباسی کے فرزند ہیں۔ جنہوں نے 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے طاقتور وزیر اور اوپننگ بیٹس مین کہلانے والے راجہ ظفر الحق کو ایک کانٹے دار اور ملک گیر شہرت کے حامل مقابلے میں شکست دی تھی۔ اوجڑی کیمپ کے حادثے میں خاقان عباسی کی رحلت کے بعد شاہد خاقان عباسی نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور وہ چھ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اس عرصے میں انہیں ایک بار شکست کا سامنا کرنا پڑے اس کی وجہ بھی الیکشن میں ان کی عدم دلچسپی بتائی جاتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کو جنرل مشرف کے طیارہ سازش کیس میں دو سال جیل میں بھی گزارنا پڑے۔ شاہد خاقان تین ماہ کے لیے وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہیں گے جس کے بعد انتخابات میں کامیابی کی صورت میں شہباز شریف مستقل وزیر اعظم کے طور پر کام کریں گے۔ شاہد خاقان ایک صلح جو اور متعدل مزاج سیاست دان کی شناخت رکھتے ہیں انہیں مسلم لیگ ن کے عقابوں کے بجائے فاختاؤں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اب عدلیہ کے فیصلے کو عملی طور پر قبول کرچکی ہے اور کسی تصادم کے موڈ میں نہیں جس کا تاثر مسلم لیگ ن کے عقابوں کی طرف سے دیا جارہا تھا۔ یہ مثبت رویہ ہے اور جمہوریت قانون اور پارلیمان کے آگے خود سپردگی کا نام ہے۔ شاہد خاقان عباسی جمہوری نظام کے تسلسل کا نام ہیں۔ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد ملکی سیاست میں ایک اُبال سا آرہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے کارکن اس فیصلے سے دلبرداشتہ ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتیں اس فیصلے کو عین انصاف قرار دے کر خوشی کا اظہار کر رہی ہیں۔
ہر فیصلے کے نتائج کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جن کے مفادات کا قتل ہوتا ہے وہ دھاڑیں مار مار کر روتے اور بین کرتے ہیں۔ انہیں دنیا ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے لیے زندگی بے رنگ اور پھیکی ہو جاتی ہے اور جنہیں اس فیصلے سے اچھے کی امید ہوتی ہے وہ اسے تاریخی قراردیتے ہیں۔ کسی بھی اقدام کے اچھے یا برے ہونے کا اصل فیصلہ وقت کرتا ہے اور اس فیصلے کے اثرات کی روشنی میں کرتا ہے۔ اگر کوئی فیصلہ ملک کو قوم کو بہتری اور استحکام اور خوش حالی کی طرف لے جانے کا باعث بنے تو کچھ لوگوں کی ناراضی کے باوجود وقت اسے اچھا ثابت کرتا ہے اور اگر اس کے برعکس ہو تو قبولیت عامہ کے باوجود وہ فیصلہ مضر قرارپاتا ہے اور مورخ بھی اسے اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتا۔ میاں نوازشریف نے اس فیصلے کو تاریخ کے حوالے کیا ہے۔ میاں نوازشریف کے حوالے سے فیصلے کے اچھا یا برا ہونے کا تعین بھی وقت اس کے اثرات کو جانچ کر ہی کرے گا۔ سردست مسلم لیگ ن کی قیادت نے اس فیصلے پر تحفظات کے اظہار کے باوجود اس پر من وعن عمل کرنا شروع کردیا ہے۔
جمہوریت میں افراد ناگزیر نہیں ہوتے سسٹم کا پہیا رواں رہنا ضروری ہوتا ہے۔ جمہوریت بادشاہت بھی نہیں جہاں ظلِ سبحانی کا تختہ اُلٹ جانے سے عوام کی زندگیوں کی شام ہی ہوجائے۔ اب تو بادشاہتوں کے لٹ جانے پر ماتم کرنے والے کم ہی پائے جاتے ہیں۔ منتخب وزرائے اعظم اور صدور کو بھی جواب دہی کے کسی نہ کسی نظام سے گزرنا ہی ہوتا ہے۔ مونیکا کیس میں بل کلنٹن منتخب صدر کے طور شدید جواب دہی کے عمل سے گزرے تھے اور دنیا نے ان کا ٹرائل براہ راست دیکھا تھا۔ یہی حال برطانیہ کے منتخب وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا ہوا تھا۔ ڈیوڈ کیمرون بھی برطانیہ کا منتخب وزیر اعظم تھا جسے پارلیمنٹ میں بہت سخت جوابدہی سے گزرنا پڑا تھا۔ چند دن قبل ایرانی صدر حسن روحانی کے بھائی اور دست راست حسین فریدون کو عدالت نے کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ گوکہ اسے ایران میں جاری طاقت کی کشمکش سے ہی جوڑا گیا ہے مگر اس سے انقلاب اور جمہوریت کو خطرے کی آوازیں کسی جانب سے سنائی نہیں دیں۔ صدر روحانی کے حامی انقلاب ایران کو خطرہ ہے یا جمہوریت کو خطرہ ہے کہہ کر سینہ کوبی کرتے نظر نہیں آئے۔ سیاست دان خود کو قوم کی قیادت اور سیادت کے بارگراں کے لیے پیش کرتے ہیں تو انہیں الزام واتہام اور ٹرائل کے لیے ہر لحظہ تیار رہنا چاہیے۔ اس لحاظ سے سیاست دانوں کو معاشرے کا عکس نہیں معاشرے سے نمایاں، ممتاز اور برتر ہوناچاہیے کیوں کہ عربی کی مشہور کہاوت ہے کہ لوگوں کا دین حکمران کے دین پر ہوتا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کے لیے بس ووٹ ملنا ہی اہلیت کا واحد میعار اور سند نہیں۔