گر نہیں کچھ، تو لطیفے ہی سہی

698
zar o zabar
مسجد اقصیٰ کے مسئلے پر آج سے پچاس برس پہلے ۱۹۶۷ء میں بھی اِس اُمت میں اُس وقت اضطراب پیدا ہوگیا تھا، جب خدا اور خانہ خدا کے دشمن، اسرائیلی یہودیوں نے، ایک رات اچانک مسجد اقصیٰ میں آگ لگادی۔ دُنیا کے تمام مسلمانوں کی طرح رحمٰن کیانی بھی اِس سانحے پر تڑپ اُٹھے۔ تڑپ کر بولے:
یہ دن دکھا دیا ہمیں چرخِ کبود نے
اقصیٰ میں آکے آگ لگا دی یہود نے
چناں چہ غم و غصے کے عالم میں اُمت مسلمہ کی سیاسی و عسکری قیادتوں کو مخاطب کیا اور انتہائی سخت الفاظ میں کیانی صاحب نے کہا:
عبرت کا ہے مقام کہ اِک قومِ مختصر
طامع، بخیل، بزدل و ملعون و فتنہ گر
کچھ مفسدانِ دہر کی شہ پا کے بے خطر
چھینے تمہارا ملک، جلائے خدا کا گھر
اور تم سوائے شور کے، کچھ بھی نہ کر سکو
کیا خوب لڑ رہے ہو کہ مارو نہ مر سکو
مگر لڑنا تو دُور کی بات ہے۔ اب جب کہ مسجد اقصیٰ کی تالا بندی ہی کر دی گئی ہے، تو عالمِ اسلام کے حکمران ’شور‘ کرنے کی سکت بھی کھو بیٹھے ہیں۔ ایک طیب اردوان ہیں کہ جن کے سینے میں دردِ ملت اسلامیہ کا طوفان برپا ہے اور وہ اقبالؔ کے اس شعر کی تفسیر بنے ہوئے ہیں:
ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطُم اب تک
مگر اے صاحبو! باقی پوری اُمت تو بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔ امت کی اس البم میں ہماری تصویر بھی شامل ہے۔
قارئینِ محترم! بے بسی کے اِس عالم میں ہم اورکچھ نہیں کر سکتے تو آئیے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ لطیفے ہی کرتے چلیں اور کہتے چلیں کہ دیکھو! ۔۔۔ ’اِس طرح، لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر‘۔
یہ ذکر ہے مولانا معاذ اللہ خان کا۔ مولانا صاحب یونیسکو کے وفد میں شامل ہوکر اسرائیل ہو آئے تھے۔ آکر بتایا:
’’جب ہم تل ابیب کے بِن گوریاں ائر پورٹ پر اُترے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ ائر پورٹ ’بِن گوریاں‘ نہیں ہے‘‘۔
ہم نے حیران ہوکر پوچھا: ’’پھر کون سا ائرپورٹ تھا؟‘‘
فرمایا: ’’ارے بھئی ائرپورٹ پر جس طرف بھی نظر جاتی تھی گوریاں ہی گوریاں نظر آتی تھیں، وہ اپنے ستر کی حفاظت نہیں کر پارہی تھیں۔ ہم اپنی نظر کی حفاظت کہاں تک کرتے؟ یہ قطعاً ’بِن گوریاں‘ ائر پورٹ نہیں تھا۔ ہم تو بس لاحول ہی پڑھتے رہ گئے۔ اماں بلامبالغہ سیکڑوں بار لاحول کا وظیفہ کرنا پڑا ہوگا۔ خدا جانے کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ائرپورٹ بِن گوریاں ہے‘‘۔
ہم نے عرض کیا: ’’مولانا! بِن گوریاں صاحب اسرائیلی یہودیوں کے قومی رہنما تھے۔ اُنھی کے نام پراِس ائر پورٹ کا نام رکھا گیا ہے۔‘‘
حیرت سے پوچھنے لگے: ’’اچھا؟ اسرائیلیوں کا کوئی قومی لیڈر بھی اپنی زندگی ’بِن گوریاں‘ گزار گیا ہے؟ حیرت ہے صاحب حیرت ہے!‘‘
ہم نے کہا: ’’ارے مولانا! اب تو۔۔۔ بِن گوریاں نوں پَرے کرو ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ اگر عالمی سامراجی طاقتوں کی خواہش پرآئندہ کسی وقت ہمارے بھی اسرائیل سے تعلقا ت قائم ہوگئے تو ہمارا کیا ہوگا؟‘‘
کہنے لگے: ’’ہونا کیا ہے؟ لطیفے ہوں گے لطیفے‘‘۔ پوچھا: ’’کیا مطلب؟‘‘
فرمایا: ’’ارے میاں! کیوں سنجیدہ ہوئے جارہے ہو؟ یہود کو ذلیل و خوار کرنے کا ذمہ تو خود اللہ نے لیا ہے۔ خدائی کام میں ہمیں مداخلت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لطیفے سنو لطیفے!‘‘ یہ کہہ کر مولانا نے وہ لطیفے سنانا شروع کردیے، جو وہ جمع کرکے ساتھ لائے تھے۔ ارشاد ہوا:
یہ سبت کی دوپہر تھی۔ موشے اپنے ربی کے دارالمطالعہ میں کھڑا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا: ’’ربی!‘‘ موشے نے فکرمندی سے سوال کیا: ’’اگرکوئی شخص سبت کے دِن کسی گائے کو ڈوبتا ہوا دیکھے تو کیا اُسے گائے کی جان بچانے کی اجازت ہے یا اُسے ڈوبنے دے؟‘‘
ربی نے اپنے زیرِمطالعہ کتاب پر سے نظریں اُٹھائیں اور تحکم بھرے لہجہ میں جواب دیا:
’’ایک گائے کی خاطر سبت کی پابندیاں توڑنے کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔
موشے نے تشویش سے کہا: ’’یہ تو بہت بُرا ہوا۔ ربی! ایک گائے جھیل میں گرگئی ہے اوروہ بے چاری ڈوب رہی ہے‘‘۔
ربی نے اپنی کتاب پر سے نظریں ہٹائے بغیر افسوس کا اظہار کیا: ’’ہاں واقعی بہت بُرا ہوا‘‘۔
موشے نے گھبرا گھبرا کر بتانا شروع کیا: ’’ربی! اب تو اُس کا سر بھی پانی کے اندر ڈوب رہا ہے‘‘۔
ربی مطالعے میں منہمک رہے۔ موشے نے رواں تبصرہ شروع کردیا:
’’اوہ …. اور اب تو وہ یقیناًڈوب چکی ہے۔ جی ہاں بالکل ڈوب گئی۔ مجھے اُس بے چاری پر بڑا رحم آرہا ہے‘‘۔
ربی نے پہلے تو بیزاری سے اظہارِ افسوس کیا: ’’ہاں! مجھے بھی اُس بے چاری پر بڑا رحم آرہا ہے‘‘۔
پھر زیرِلب بڑبڑاتے ہوئے مزید کہا: ’’یہ بڑی افسوس ناک بات ہے، مگر بھلا کوئی کیا کر سکتا ہے؟‘‘
موشے نے کہا: ’’ربی! مجھے تو آپ پر بھی بڑا رحم آرہا ہے۔‘‘
اب ربی نے اپنا سر اُٹھایا اور گھبر اکر پوچھا: ’’کیوں؟ مجھ پر کیوں؟‘‘ موشے نے معصومیت سے بتایا: ’’کیوں کہ وہ آپ ہی کی گائے تھی!‘‘
یہ کہہ کر مولانا نے اگلا لطیفہ شروع کیا کہ ایک صاحب پر ’مذہبی جنونی‘ ہونے اور اسٹیٹ آف اِسرائیل کا باغی ہونے کا شبہ تھا، اِسرائیلی پولیس نے دھر لیا۔ اُن کی حب الوطنی کا امتحان لینے کے لیے تحقیقاتی افسر نے پوچھا: ’’مسٹر کوہن! اگر تمہارے پاس انگوروں کا ایک باغ ہو تو اُس کا کیا کروگے؟ مسٹر کوہن نے جواب دیا: ’’اُس کی آمدنی اسٹیٹ آف اِسرائیل کے لیے وقف کردوں گا‘‘۔
پولیس آفیسر نے پوچھا: ’’اگر تمہارے پاس ایک شاندار محل ہو تو کیا کروگے؟‘‘
جواب ملا: ’’جب بھی اسٹیٹ آف اِسرائیل کو اُس کی ضرورت پڑی فی الفور نذر کردوں گا‘‘۔
پوچھا گیا: ’’اگر تمہارے پاس باربرداری کا ٹرک ہو تو کیا کروگے؟‘‘
جواب آیا: ’’بوقتِ ضرورت اسٹیٹ آف اسرائیل کی خدمت کے لیے بلا معاوضہ پیش کردوں گا‘‘۔
اگلاسوال یہ تھا کہ: ’’اگر تمہارے پاس موٹر کار ہو تو اُس کا کیا استعمال کروگے؟‘‘
اس سوال کے جواب میں گہری خاموشی تھی۔ پولیس آفیسر نے اپنا سوال دوہرایا، مگر پھر وہی گمبھیر خاموشی۔ آخر وہ جھلا کر چیختے ہوئے بولا:
’’مسٹر کوہن! تم میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ بولو، خاموش کیوں ہوگئے؟‘‘
مری ہوئی آواز میں جواب ملا: ’’ان سب چیزوں میں سے بس ایک موٹر کارہی تو ہے میرے پاس‘‘۔
مولانا کہنے لگے کہ دولت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ پیسے کو دانتوں سے پکڑتے ہیں اور خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یروشلم میں ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کہا: ’’مجھے دیوارِ گریہ دِکھالاؤ‘‘ اُس نے حیران ہوکر پوچھا: ’’دیوارِگریہ؟ یعنی کیا؟‘‘
اُس کوسمجھایا: ’’ارے بھئی وہ جگہ جہاں جاکر یہودی روتے ہیں‘‘۔ ڈرائیور بولا: ’’تو یوں کہو نا!‘‘
مگر وہ بھی اپنی قسم کا ایک ہی بوجھ بجھکڑ تھا۔ ایک بڑی سی عمارت کے نیچے ٹیکسی لے جاکر کھڑی کردی۔ اور بولا:
’’یہی وہ جگہ ہے جہاں ہر یہودی سسکیاں بھرتا ہوا آتا ہے اور دھاڑیں مار مار کر روتا ہوا واپس جاتا ہے۔‘‘
اُتر کر دیکھا تو اوپر ایک بہت بڑے جہازی سائز کے بورڈ پر لکھا ہوا تھا: ’’محکمۂ انکم ٹیکس‘‘۔