کیا شہباز شریف وزیراعظم بن سکیں گے؟

204

zc_MFمسلم لیگ ن نے شہباز شریف کو ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی رکنیت دلوا کر اقتدار کی باقی مدت کے لیے وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک شاہد خاقان عباسی عبوری وزیراعظم ہوں گے۔ قومی اسمبلی نے رائے شماری کے ذریعے اس چناؤ کی تصدیق کردی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبوری وزیراعظم کیوں؟ حکومت کی باقی مدت کے لیے ایک ہی وزیراعظم کیوں نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میاں نواز شریف بہت زیادہ نقصان اُٹھانے اور اپنے پورے خاندان کو احتساب کے شکنجے میں کسوانے کے باوجود اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ اقتدار ان کے خاندان ہی میں رہے۔ وہ نہیں تو ان کا بھائی مرکز میں برسراقتدار آجائے اور پنجاب کی وزارت علیہ بھتیجے کے سپرد کردی جائے۔ میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن ان کے خاندان کے گرد ہی طواف کرتی رہے اور اس خاندان سے باہر پارٹی میں کوئی قیادت اُبھرنے ہی نہ پائے۔ یہ بہرکیف پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے اور اسی کے نتیجے میں جمہوریت ملک میں ہچکولے کھارہی ہے لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے۔ ہمارے پیش نظریہ سوال ہے کہ کیا شہباز شریف وزیراعظم بن سکیں گے؟ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اگر عدلیہ سمیت ملک کی ہیئت مقتدرہ نے شریف خاندان کو اقتدار سے آؤٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے یا بہ الفاظ دیگر قضاو قدر کا فیصلہ یہی ہے کہ بہت ہو چکا اب اقتدار شریف خاندان سے واپس لے لیا جائے تو کس میں طاقت ہے کہ اس فیصلے کو تبدیل کرسکے۔ ایسی صورت میں شہباز شریف وزیراعظم کیسے بن پائیں گے، ان کا دامن بھی صاف نہیں ہے۔ جے آئی ٹی نے انہیں بھی کلیئر نہیں کیا ہے۔ حدیبیہ شوگر ملز کا کیس کھل گیا تو انہیں بھی لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ماڈل ٹاؤن کے چودہ بے گناہ مقتولین کا خون بھی دُہائی دے رہا ہے جس کی تحقیقاتی رپورٹ شہباز شریف نے دبا رکھی ہے۔ حالاں کہ ایک ریٹائرڈ جج باقر نجفی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی خود انہوں نے قائم کی تھی لیکن جب تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ پیش کی تو وہ بغلیں جھانکنے لگے کہ اس میں پردہ نشینوں کے بھی نام آئے تھے۔ رپورٹ روک لی گئی اور اب ضمنی الیکشن کے موقع پر یہ معاملہ باآسانی اُٹھایا جاسکتا ہے۔ ریٹرننگ افسر کے لیے شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی منظور کرنا اتنا آسان نہ ہوگا۔
کہا جارہا ہے کہ یہ محض عدلیہ کا فیصلہ نہیں اس کے پیچھے کوئی اور قوت موجود ہے۔ بظاہر اس کا نام نہیں لیا جاتا لیکن سب جانتے ہیں کہ وہ قوت کون سی ہے۔ اگر بالفرض اس قوت نے میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کیا ہے اور ان کے پورے خاندان کو احتساب کے شکنجے میں کسا ہے تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس خاندان کے ایک فرد کو پھر وزیراعظم کی حیثیت سے قبول کرلے۔ بعض حلقے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی انہیں وزیراعظم بننے کی پیش کش کی تھی لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف سول حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان رابطے کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں اس لیے موجودہ حالات میں وہ عسکری قیادت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے اور وہ آسانی سے وزیراعظم بن جائیں گے۔ اگر آئندہ انتخابات میں ن لیگ پھر کامیاب ہوئی تو اگلے پانچ سال کے لیے پھر شہباز شریف کی قسمت کھل جائے گی لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد کھیل زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے اب شریف خاندان کا دوبارہ برسراقتدار آنا آسان نہیں رہا۔ شہباز شریف کو پنجاب سے مرکز میں لانے کی کوشش کی گئی تو پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی حکومت ڈانواڈول ہوسکتی ہے۔ بظاہر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن ایک نظریاتی جماعت ہے، میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا تھا کہ یہ نواز شریف کا نہیں نظریہ پاکستان کا احتساب ہورہا ہے حالاں کہ میاں صاحب ایک مدت ہوئی نظریہ پاکستان سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ پاکستان اور بھارت میں بسنے والی قوموں کے درمیان بنیادی طور پر کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ وہ سیفما کانفرنس سے خطاب کے دوران برملا اس کا اظہار کرچکے ہیں۔
انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان ویزا ختم کرنے اور ایک ہی کرنسی رائج کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ لیکن افسوس ان کی تجویز کو پزیرائی حاصل نہ ہوئی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلم لیگ نظریاتی ہوا کرتی تھی وہ تو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ختم ہوگئی تھی اس کے بطن سے بھانت بھانت کی لیگیں پیدا ہوئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی گئیں۔ آخر عوامی لیگ بھی تو مسلم لیگ کے بطن سے پیدا ہوئی تھی جس نے پاکستان کو توڑنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ن لیگ نظریاتی نہیں اقتدار کے متوالوں کی جماعت ہے اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو ہر دور میں اپنی وفاداری بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی ان لوگوں کو ایک موہوم سی امید ہے کہ شاید ابتلا ٹل جائے اور اقتدار کی غلام گردشیں ان کے قدموں سے آباد رہیں لیکن جونہی یہ امید بجھی ان کی وفاداری نیا روپ اختیار کرلے گی یہ کام اُس وقت ہوگا جب شہباز شریف وزیراعظم بنتے بنتے رہ جائیں گے۔