پاکستان میں اداروں کے درمیان لڑائی کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس کا آغاز تو برسوں قبل ہوا تھا لیکن جب ملک میں سویلین حکومت ہوتی ہے اسی وقت یہ ادارے لڑنے لگتے ہیں۔ کوئی بھی کسی ادارے کو الزام دے سکتا ہے کہ وہ دوسرے سے لڑ رہا ہے لیکن پاکستان میں یہ تماشا سب نے دیکھا کہ فوجی دور میں ادارے نہیں لڑتے، نہ کسی کے خلاف کوئی ثبوت میڈیا میں آتا ہے اور نہ کسی کی گفتگو کی ریکارڈنگ دی جاتی ہے۔ کیا اس دور میں سارے ادارے ایماندار اور نیک افسران پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے اور اس سوال کا جواب جاننے کے لیے اب کسی مشکل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے خود بخود بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ بہر حال جب یہ الزام سویلین ادوار حکومت پر ہی لگتا ہے تو سویلین اس حوالے سے احتیاط کا دامن نہیں تھامتے۔ بلکہ جمہوری آزادی اور آزادی اظہار رائے کے نام پر پگڑیاں اُچھالتے ہیں، ایک لمحے کو رُک کر نہیں سوچتے کہ اسکینڈل کہاں سے لائے جارہے ہیں، کون اتنی معلومات رکھتا ہے، اب ایک بار پھر عبوری حکومت نے ایک غیر ضروری عمل کیا ہے۔ نئی وفاقی کابینہ کی حلف برداری کے موقع پر کابینہ نے میاں نواز شریف پر اعتماد کی قرار داد منظور کی ہے۔ اگر یہ قرار داد منظور نہ کی جاتی تو کیا فرق پڑتا سب جانتے ہیں کہ پوری مسلم لیگ میاں نواز شریف پر اعتماد کرتی ہے۔ اور دوسرا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ میاں نواز شریف بھی کابینہ پر اعتماد رکھتے ہیں۔ تب ہی تو وزرا کے ناموں کی منظوری دی ہے۔ کابینہ نے سابق وزیراعظم کی پالیسیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ چند روایتی قسم کے اعلانات کیے گئے ہیں جن کی تکمیل کے بارے میں آج تک عوام نے کسی حکمران سے سوال نہیں کیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں سی پیک کی تکمیل، میرٹ اور شفافیت کو برقرار رکھنے کے دعوے کیے اور 10 سال کے ترقیاتی منصوبے 10 ماہ میں مکمل کرنے کا اعلان کردیا۔ حالاں کہ دس ماہ کے منصوبے دس دس سال پورے نہیں ہوتے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے میاں نواز شریف پر اعتماد کی قرار داد ایک غیر ضروری عمل تھالیکن اس سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو یہی پیغام گیا کہ ہم تمہارے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ اس طرح کے پیغام سے اداروں کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے مخالف ارکان کو آگے بڑھا کر اسے بھی یہی پیغام دیا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کی لڑائی ہوگی۔ حالاں کہ جب فوجی حکومت ہوتی ہے تو ہمارے سیاسی قائدین اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عبوری وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں جو روایتی باتیں کی ہیں وہ اس قدر روایتی ہیں کہ کسی مبتدی صحافی سے بھی کہا جائے کہ وزیراعظم کا ایک عمومی تیار کردے تو وہ یہی جملے استعمال کرے گا کہ میرٹ یقینی ہوگی، منصوبے وقت پر مکمل ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔ وزیراعظم نے ایک حکم جاری کیا ہے کہ وزرا بغیر اجازت ملک سے باہر نہیں جاسکیں گے۔ اور وزارت خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی تینوں حکومتوں نے یہی اعلانات کیے تھے لیکن توانائی کا مسئلہ حل ہوا نہ ترقی ہوئی۔ اسی طرح وزرا کے بیرون ملک جانے کا ایک طریقہ کار پہلے بھی طے ہے لیکن بااثر اور طاقتور وزرا پہلے بھی ہر قاعدے قانون سے بالا تر تھے اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ کم از کم اسحق ڈار وزیراعظم سے اجازت لے کر بیرون ملک نہیں جائیں گے۔ اسی طرح کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے کی ہدایت ہے۔ کیا کشمیر میں بھارت کی جانب سے کسی ظلم کو بے نقاب کرنے کی ضرورت رہ گئی ہے۔ بھارتی مظالم اور خلاف ورزیاں تو اب بے لباس ہوچکی ہیں، اب تو پاکستان کی جانب سے کسی کارروائی کی ضرورت ہے بے نقاب کرنے کی نہیں۔ اور یہ کام میاں صاحب کی تین حکومتیں نہیں کرسکیں۔ عبوری حکومت کیا کرے گی، مجموعی طور پر عبوری وزیراعظم کا افتتاحی خطاب روایتی اور بے معنی تھا۔ تاہم ان45 میں سے 4 روز کے دوران کئی بار 45 روز سے زیادہ حکومت میں رہنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ حالیہ خطاب میں بھی دس سال کے کام دس ماہ میں کرنے کا اعلان یہ بتارہا ہے کہ عبوری حکومت 45 روز میں نہیں جارہی۔