عاصمہ جہانگیرکا ایجنڈا

222

Edarti LOHپاکستان میں قومی اداروں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے والے بعض ایسے عناصر بھی ہیں جو کہ اداروں سے تعلق نہیں رکھے۔ بلکہ وہ صرف ایجنڈے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر بھی ہیں۔ ساری عمر اسلام مسلم اور مسلم لیگ کی مخالفت میں گزاری۔ آج عدالت عظمیٰ کو کمزور کرنے کے لیے شوشے چھوڑ رہی ہیں ایک دن عدالت عظمیٰ کو آئین کا بگڑا بچہ قرار دیا اور کہا کہ الفاظ واپس نہیں لوں گی عدالت عظمیٰ بند گلی میں داخل ہوچکی۔ سوال یہ ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ نے ان کے خیال میں غلط فیصلہ دیا ہے تو اس کے قانونی ذرائع آئین میں موجود ہیں ۔ فیصلے پر اعتراض ہے تو عدلیہ سے ہی رجوع کریں ۔ نئی درخواست دیں نیا مقدمہ درج کرائیں۔ یہاں تک کہ اگر بقول ان کے عدالت بند گلی میں داخل ہوگئی ہے تو اسے بند گلی سے نکالنا وکلاء کا کام ہے یا مقابلے میں کھڑا ہو جانا۔ عاصمہ جہانگیر کے انداز سے تو لگتا ہے کہ وہ عدلیہ کو بند گلی میں ہی بند کردینا چاہتی ہیں ۔ ان کا نشانہ آئین کی اسلامی شقیں ہیں ،ان کا نشانہ پاک فوج ہے، ان کا نشانہ اب عدلیہ ہے۔ میاں نوازشریف سے یا پارلیمنٹ سے انہیں کبھی ہمدردی نہیں رہی۔عبوری وزیر اعظم اور ان کی کابینہ عاصمہ جہانگیر قبیل کے لوگوں سے ہوشیاررہیں اور ان سے فاصلہ رکھیں ۔ جلسے جلوس کریں نوازشریف کی حمایت بھی کریں لیکن اداروں پر تبصروں سے گریز کریں ۔ عاصمہ جہانگیر نے اپنی پوری سرگرمی اور سیاست کو پاکستان کے دستور ، اسمبلی ، پارلیمنٹ اور استحکام پاکستان کو متزلزل کرنے اور ابہام پھیلانے کے لئے صرف کیا ہے۔ معلوم نہیں عبوری وزیر اعظم کو چند بیانات اچھے لگے ہیں یا یہ بھی کوئی ایجنڈا ہے کہ انہوں نے عاصمہ جہانگیر کو اٹارنی جنرل بننے کی پیش کش کرڈالی۔ یہ تو بہرحال وفاقی حکومت کا استحقاق ہے کہ کسے اٹارنی جنرل بنائے اور کس کو کون سا عہدہ دے لیکن عدلیہ کے وقار کا تحفظ عدلیہ کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی فریضہ ہے۔