اسلام آباد (نمائندہ جسارت) سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ آمروں نے ہمیشہ ملک تباہ کیا ہم نے بنایا ہے، سب کچھ سمجھ آرہا ہے کہنا چاہتا ہوں ،خاموش نہیں رہوں گا، میثاق جمہوریت پر اب بھی قائم ہوں، ملک بدری ٹھوکر تھی، کیا کوئی ایسی عدالت ہے جو آئین کو پامال کرنے والے ڈکٹیٹر کو سزا دے سکے؟ قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ آمروں کو کب سزا ملے گی، اگر کسی آمر کو سزا نہیں مل سکتی تو نظریہ کیا ہے؟ تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا ، ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو سکتا ہے ،جمہوریت اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتا ہوں کوئی کام ایسا نہیں کروں گا جس سے ملکی معیشت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل ہو۔ ان خیالات کا اظہار ہفتے کو پنجاب ہاؤس میں پاکستان براڈ کاسٹنگ ‘ آل نیو پیپرز سوسائٹی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے نمائندوں کے علاوہ سینئر صحافیوں سے ملاقات میں کیا ۔ نواز شریف نے کہا کہ جو کچھ ہو رہاہے وہ سب کے سامنے ہے، کوئی کرپشن ،کک بیک یا سرکاری خزانے میں کرپشن کی ہوتی تو کوئی بات تھی،بیٹے نے پیسے باہر سے بھجوائے دوسرے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اس پر اعتراض بنانا سمجھ سے بالا تر ہے، کسی وزیر اعظم سے اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو سکتا ہے، بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ ہی نہیں لی تو ظاہر کیا کرتا۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کا کوئی ایک بھی الزام نہیں ہے۔ بہت کچھ سمجھ میں آ رہا ہے کہنا چاہتا ہوں لیکن ابھی خاموش رہنا چاہتاہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے ترقی کا راستہ روکا ہو۔ جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ باپ دادا کی کمپنیوں کو ٹٹولا گیا لیکن کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے اور بچوں سے پوچھا جا رہاہے کون سا پیسہ ہے جو ناجائز طریقے سے کمایا؟۔ نیب میں جو کیس چلائے جاتے ہیں وہ بدعنوانی کے ہوتے ہیں یہ پہلا کیس ہمارے باپ دادا کی کمپنی کی تحقیقات کرنے جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہماری انڈسٹری کو ذوالفقار علی بھٹو نے قومیایا تب میں سیاست میں بھی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کا ڈکٹیٹر کہتا ہے آمریت جمہوریت سے بہتر ہے۔ جانے وہ کون سی دنیا میں رہتا ہے۔ پاکستان آنے کی جرأت نہیں یہاں آئے عوام کے سامنے بات کرے تو اس کو پتا چلے۔ ملک بدری ایک ٹھوکر تھی انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے۔ کیا کوئی عدالت ڈکٹیٹر کا احتساب کر سکتی ہے ۔ کیا آئین توڑنے والوں کو کبھی سزا مل سکے گی۔قوم دیکھنا چاہتی ہے آمروں کو کب سزا ملے گی۔ نواز شریف نے کہا کہ اگر کسی آمر کو سزا نہیں مل سکتی تو نظریہ کیا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ میری وطن واپسی پر پرویز مشرف مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ پرویز مشرف نے پیغام بھیجا کہ ملاقات سے آپ کو فائدہ ہے ،مشرف کے ساتھ ملنے کے لیے بار بار کہا گیا ۔ مشرف میرے ساتھ این آر او کرنا چاہتا تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ جب آصف زرداری صدر بنے تو ان سے ملاقات کی۔ آصف زرداری نے ایوان صدر چھوڑا تو اس وقت بھی ان کی عزت کی۔ نواز شریف نے کہاکہ تحمل کا مظاہرہ کر رہاہوں ،گالم گلوچ کا جواب نہیں دیا۔ دھرنوں والی زبان کا جواب نہیں دیا۔ میں نے نامناسب رویہ اختیار نہیں کیا۔ کراچی کا امن بحال کرایا بجلی آ گئی۔ نواز شریف نے کہاکہ میثاق جمہوریت پر اب بھی قائم ہوں۔ اس موقع پر سینئر صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کو ہٹانے کا فیصلہ کافی عرصہ پہلے ہو چکا تھا؟۔ جس پر نوا زشریف نے جواب دیا کہ آپ لوگ بتائیں کیا کہتے ہیں۔ سمجھ بہت کچھ آتا ہے لیکن فی الحال میں بول نہیں رہا۔ ملک معاشی طور پر بہترین چل رہا تھا۔ عالمی میڈیا کہہ رہا تھا پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے ترقی کا پہیہ رکا ہو۔ میں نے اپنے دور حکومت میں انتشار نہیں پھیلایا۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر رضا ربانی ‘ احسن اقبال اور اسحاق ڈار نے محنت کی۔ میں نے میثاق جمہوریت پر عملاً کام کر کے دکھایا۔ نواز شریف نے کہا کہ جب ملک ٹوٹا تو سب روئے کیا ہم نے سبق سیکھا؟۔ اکبر بگٹی کو بے دردی سے قتل کیا گیا لوگ آہستہ آہستہ سب کچھ سمجھ جائیں گے۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ کیاآپ کی جمہوریت کو نقصان ہوا ؟‘ کیا آپ خود کو وکٹم کے طور پر پیش کریں گے یا اپنا بیانیہ دیں گے؟۔ نواز شریف نے جواب دیا کہ میں ہمیشہ خاموش نہیں رہوں گا۔