علم کسی کی میراث نہیں

220

میٹرک بورڈ لاہور نے سالانہ نتائج کا اعلان کیا ہے جس میں عمر طارق، غضنفر علی اور محمد افضل نے بالترتیب پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ غضنفر علی کا والد ایک مزدور ہے جس نے اس مہنگائی کے دور میں مزدوری کرکے اپنے بیٹے کی تعلیم کا بندوبست کیا جب کہ محمد افضل ایک رکشا ڈرائیور کا بیٹا ہے جس نے مستقبل میں درس نظامی کا کورس کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ نوجوان نسل میں دینی تعلیم کے حصول کا رجحان خوش آئند ہے۔ غریب طبقے کا پوزیشن حاصل کرنا، اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذہانت کسی کی میراث نہیں ہے۔ وہیں یہ بورڈ کی نمایاں کارکردگی کی دلیل بھی ہے، ورنہ کراچی میٹرک اور انٹر بورڈ تو آج تک نقل اور پیپر آؤٹ کے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں طلبہ لوڈشیڈنگ پر احتجاج کرتے ہیں پھر بھی موم بتی یا چاند کی روشنی میں پڑھ کے پوزیشن لے آتے ہیں جب کہ کراچی میں احتجاج اس لیے ہوتا ہے کہ آؤٹ پرچے کی فوٹو اسٹیٹ میں مشکل ہوتی ہے۔ مسائل یکساں ہیں البتہ عزائم یکسر مختلف ہیں۔ دوسری طرف ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز کی وبا اس قدر عام ہوگئی ہے کہ ڈر ہے آئندہ یہ ایک مافیا کا روپ دھارلے گی۔ اساتذہ کلاس میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں خیانت کرتے ہیں اور طلبہ کو اس ٹیوشن سینٹر کا رُخ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ پھر کوچنگ سینٹرز میں بھی مقابلے ہوتے ہیں جس کے بورڈ میں تعلقات زیادہ ہوں یا وہ بڑی بولی دے دے تو پوزیشن اس کی جھولی میں ڈال دی جاتی ہے اور یوں غریب طبقے کے استحصال کے ساتھ ساتھ ذہانت اور استعداد کو ضائع کیا جارہا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ کسی بورڈ کے خلاف آواز اُٹھاتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں اسے بھی چینی کمپنی کے حوالے نہ کردیا جائے۔
الیاس متین، کراچی