جب لوطؑ کی قوم پر پتھروں کی بارش کی شکل میں عذاب آیا، تو اس وقت اُس قوم کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہوچکی تھی کہ ان کی پوری قوم میں کوئی 10 لوگ بھی نیک نہیں بچے تھے اور باقی تمام اُمتوں کا بھی یہی حال ہوا تھا کہ ان کی اکثریت شرک یا کسی اور بہت برے گناہ میں ملوث ہوگئی تھی اور پھر اللہ کا عذاب آیا اور وہ صفحہ ہستی سے مٹادیے گئے۔ اگر آج ہم اپنا جائزہ لیں تو ہم بھی انتہائی پستی کا شکار ہوچکے ہیں، تمام کبائر کا بڑی ڈھٹائی سے ارتکاب کرتے ہیں، بظاہر کلمہ گو ہیں، ڈاڑھیاں رکھی ہوئی ہیں، اللہ اکبر بھی کہتے ہیں مگر اپنی خواہشات ہی کو بڑا سمجھتے ہیں، اللہ کے نافرمان اور ناشکرے بنے ہوئے ہیں، دوسروں کی برائیاں تو ہمیں نظر آجاتی ہیں لیکن یہ شعور ہی نہیں کہ خود کہاں کھڑے ہیں، نہ پچھلے گناہوں کا کوئی پچھتاوا ہے اور نہ آئندہ کے اعمال کی اصلاح کی فکر۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پر ظالم حکمران مسلط ہیں۔ لِلہ کچھ تو سوچیے!
ثمینہ نعمان