ایمبولینس کو راستہ دیں‘ اس میں آپ کا کوئی پیارا بھی ہوسکتا ہے

280

عبدالمعید خان
مہذب معاشرے اپنی تنظیم، اپنی ترتیب اور اپنے ڈسپلن سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہاں کی سڑکیں، بازار، دفاتر، ایوان اور افراد سب اصول و ضابطے کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں۔ معاشرے کو بننے، پنپنے، پروان چڑھنے اور صحیح بنیادوں پر استوار ہونے کے لیے سب سے توانا ضرورت اخلاقی حس ہے۔ ایک اچھے معاشرے کی اخلاقی حس پوری طرح بیدار ہوتی ہے۔ یہ اسی اخلاقی حس کا کمال ہے کہ معاشرہ اپنے اندر موجود کمزور طبقات، افراد، گروہ یا کمیونٹی کو خواہ وہ صحت، معیشت یا معاشرت کے مسائل کی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں تو انہیں سنبھالتا ہے۔ ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور جہاں جہاں ضرورت پڑتی ہے تو رعایت، سہولت انفاق اور دیگر ذرائع سے ان کی خدمت بجا لانے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہتا ہے۔ بیدار اور فعال اخلاقی حس معاشرے میں ایسی روح پھونکتی ہے کہ اس کے افراد باہم محبت، یگانگت، ایثار، خیر خواہی، بے لوثی اور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار ہو کر ایک ایسا سماجی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں جو دوسروں کے لیے مثال بن جاتا ہے۔ پھر یہ منظر طلوع ہوتا ہے کہ ایک فرد کا دکھ سب کا سانجھا دکھ بن جاتا ہے۔ زمین پر گرے ہوئے مجروح شخص کو سہارا دے کر اٹھا لینا، راہ کے پتھر کو ہٹا دینا، بیمار یا زخمی کو ہسپتال لے جانے والی ایمبولینس کو راستہ دے دینا برابر کی نیکیاں ہیں۔ معاشرہ اس طرح کی نیکیوں کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے۔
شاہراہیں خواہ کتنی ہی کشادہ، ہموا راور شاندار کیوں نہ ہوں اگر ان شاہراہوں پر دوڑتی گاڑیوں میں موجود انسانوں کے دل گداز سے خالی اور پتھر نما سخت ہوں جو کسی کی مصیبت و اذیت کو محسوس کرنے سے عاری ہوں تو پیچھے آنے والی ایمبولینس چیختی رہ جائے گی مگر اسے بے درد انسان کی گاڑیوں کا ہجوم آگے جانے کا راستہ یا پہلے نکل جانے کا موقع نہیں فراہم کرے گا۔
بڑی بڑی شاہراہیں تعمیر کرلینا یقیناًترقی کی علامت ہے مگر یہ خوبصورت سڑکیں ایک شدید بیمار کو فوری اور بروقت ہسپتال منتقل نہ کرسکیں۔ محض اس وجہ سے کہ اس پر دوڑتی ہوئی گاڑیوں نے ایمبولینس کو راستہ نہیں دیا تو باور کرلینا چاہیے کہ معاشرے کی اخلاقی حس مرچکی ہے۔ چناں چہ ایسی ترقی، ترقی معکوس ہی کہلا سکتی ہے۔ سڑکوں پر دوڑتی سائرن یا ہوٹر بجاتی یہ ایمبولینسیں کسی اپنے یا غیر کو بروقت ہسپتال پہنچانے کا بیڑا اٹھاتی ہیں۔ اس کے مشاق ڈرائیورز انسانی مدد کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔ ان کے سر میں ایک سودا سمایا ہوتا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے مریض کو کسی بھی ان چاہے خطرے سے دوچار ہونے سے پہلے معالج کے سپرد کردیں۔
راستہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو، ٹریفک کی بہتات کیوں نہ ہو لیکن اسے فقط یہ امید جگا کر رکھتی ہے کہ جس طرح میرے دل میں اس مریض کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ ہے اسی طرح سڑک پر موجود دوسری گاڑیوں کے لوگ بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پہلے نکلنے کا موقع ضرور دیں گے۔
سڑک پر موجود گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے افراد ایمبولینس کی پکار سن کر اگر چند ثانیوں کے لیے اپنے سفر کو موخر کردیں اور اپنی رفتار کو دھیمی کرلیں اور عقب سے آنے والی ایمبولینس کو راستہ دے دیں تو شاید انہیں اندازہ نہیں کہ انہوں نے کیسی نیکی کا کام کیا ہے۔ اپنی منزل پر پہنچنے میں تھوڑی سی تاخیر کسی اور کی زندگی کو بچالینے کا ذریعہ بن گئی ہے اور یہ ادا انسانوں کو ہی نہیں بلکہ انسانوں کے خالق کو بھی بہت بھاتی ہے۔ پھر یہ بھی سوچیں کہ کل خدانخواستہ کسی ایمبولینس میں اس طرح آپ یا آپ کا کوئی پیارا گھر سے تڑپتے ہسپتال کا رخ کررہے ہوں اور سڑک پر موجود لوگ ایمبولینس کے سائرن کو سنی ان سنی کردیں اور آپ کا راستہ روکے کھڑے ہوں تو آپ اور آپ کے لواحقین پر کیا بیتے گی؟
یاد رکھیں کہ کسی بیمار کی آہ کو سنی ان سنی کردینا اور کسی ایمبولینس کے سائرن کو نظر انداز کردینا ایک جیسا گناہ ہے۔ ایمبولینس کے سائرن کو درد سے تڑپتے مریض کی کراہ سے تعبیر کرنا غلط نہ ہوگا۔ مریض کی تکلیف، اس کی آہیں، اس کا کرب، ایمبولینس کے سائرن کی آواز میں ڈھل کر آپ کے کانوں تک منتقل ہونا چاہیے۔ آپ سائرن کی آواز کو مریض کے کرب کے قائم مقام سمجھیں گے تو احساس کی اس منزل پر فائز ہوں گے جہاں آپ کے قدم از خود رک جائیں گے۔ آپ کا پاؤں بریک پر دباؤ بڑھانے لگے گا اور آپ کے اندر سے آواز ابھرے گی کہ میں اس مریض کو راستہ ضرور دوں گا۔ اسے جلد ہسپتال پہنچانے کے فرض کی ادائیگی میں بھی حصہ ڈالوں گا۔ جب جب معالج اس کے زخموں پر پھایے رکھے گا تب تب میرا اللہ مجھے بھی اس نیکی پر اجر دے گا اور جیسے جیسے اس کے زخم بھریں گے ویسے ویسے مجھے بھی اللہ تعالیٰ اطمینان قلب کی دولت سے نوازے گا۔ یہ اصول تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ میں اس میں ایک اور اضافہ کیے دیتا ہوں کہ ’’نیکی ہو یا بدی‘‘ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ اپنا اثر اور نتیجہ ظاہر کرکے رہتی ہے۔ آپ راہ میں پڑے پتھر یا کیلے کے چھلکے کو یوں ہی پڑا رہنے دیں تو یقیناًکوئی نہ کوئی ٹھوکر کھا کر پھسل کر حادثے سے ضرور دوچار ہوگا۔ اس کے برعکس اگر آپ اسے ہٹا کر راستے کو گزرنے کے قابل بنادیں تو یقیناًآپ نے بہت سوں کو حادثے سے بچالینے کا فریضہ انجام دیا۔ گویا ایک ہی لمحہ آپ کو فیصلہ کرنے کے لیے میسر ہے کہ آپ نیکی کریں یا بدی۔ ہر دو کا نتیجہ اور اثر بہرحال پیدا ہو کر رہے گا۔
اس پر قیاس کرلیں کہ اگر آپ سڑک پر ایمبولینس کی راہ کا پتھر بن گئے، اسے روکنے اور آگے نہ جانے دینے کا ذریعہ بن گئے تو آپ کی یہ بدی بھی اپنا نتیجہ پیدا کرکے رہے گی۔ آپ کی بے حسی ایک طرف تو آپ کے اندر اضطراب پیدا کرے گی اور دوسری طرف ایمبولینس میں موجود کسی زخمی یا مریض کی زندگی کے لیے خطرات بڑھیں گے جو ہوسکتا ہے کہ بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں اس کی زندگی کے خاتمے پر منتج ہو۔
اسی لیے انسانوں کے راستوں، تمام گزرگاہوں اور شاہراہوں کو صاف ستھرا اور کھلا رکھنے کا اصول ساری دنیا میں یکساں طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمارے نبی سیدنا محمد مصظفیؐ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو صحابہ کرام کی طرف رخ کرکے نماز سے پہلے چند ہدایات فرمایا کرتے تھے۔ اس میں باالخصوص یہ حکم بھی موجود ہوتا تھا کہ راستے میں نماز نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بیت اللہ ہو یا مسجد نبوی دونوں مقامات پر ہر نماز سے پہلے امام صاحبان سنت نبویؐ کی پیروی کرتے ہوئے ان الفاظ کو دہراتے ہیں جو نبی کریمؐ فرمایا کرتے تھے بلکہ دونوں مقامات مقدسہ میں گزرگاہوں پر کھڑے نمازیوں کو روکا جاتا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ اسلام نے راستوں کے احترام پر کس قدر زور دیا ہے۔ اسلام عبادت کو بھی ممنوع قرار دے کر انسان کی عام گزرگاہوں کو محفوظ، محترم، بنا کسی رکاوٹ کے کھلا اور صاف شفاف رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔
سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک روانی کو متاثر کرتا ہے۔ غیر منظم اور منتشر انداز میں گاڑیوں کو دوڑانا، اپنا ٹریک چھوڑ کر دوسری طرف تیز رفتاری سے نکلنے کے لیے ٹریفک اصولوں کی پامالی جیسے اقدامات بھی ایمبولینس کے سفر کو مشکل بناتے ہیں۔ شاہراہوں کے نظام کو رواں رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس کو ہمیشہ مستعد رہنا چاہیے۔ ٹریفک اصولوں کی پابندی کا کلچر اور اس کی نگرانی کا موثر نظام ٹریفک جام جیسے مسائل کو پیدا ہونے سے پہلے ہی روک دیتا ہے۔ بیماروں اور زخمیوں کو ہسپتال اور ہسپتال سے گھر پہنچانے کے لیے یہ ایمبولینسیں جو کارِ خیر انجام دے رہی ہیں اس کا شعور معاشرے میں اجاگر ہوتے رہنا چاہیے۔ وہ تنظیمیں، ادارے اور افراد مبارک باد کے مستحق ہیں جو یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ہلال احمر، ایدھی، چھیپا اور دیگر ادارے لوگوں کی مدد اور تعاون کے بجا طور پر حق دار ہیں۔ ان اداروں کو تقویت پہنچانا، انہیں مالی وسائل فراہم کرنا اور ایمبولینسوں کو جدید میڈیکل سہولتوں سے آراستہ کرنا سب کا مشترکہ کام ہے۔