نوے کلو میٹر فاصلے پر محیط اس ایکسپریس وے کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی وقتاً فوقتاً مرمت کا خاطر خوا ہ انتظام ہونے کے باعث یہاں بحفاظت سفر کی جملہ تمام سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں البتہ بعض مقامات پر اسپیڈ بریکرز سے اس شاہراہ پر پرسکون اور آرام دہ سفر کا مزہ کافی حد تک کر کرہ ہوجاتا ہے ویسے بھی اتنی مصروف اور بڑی شاہراہوں پر اسپیڈ بریکرز کی تعمیر جہاں ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے وہاں بسا اوقات ان سے حادثات بھی جنم لیتے ہیں اس لیے انہیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے محفوظ سفر کے دعوے اورنعرے کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ مری سے براستہ بھوربن اور روات کوہالا تک سڑک یک رویہ ہونے کے باوجود ہموار اور شفاف ہونے کے باعث سیاحوں کو بڑی تعداد میں اپنی جانب راغب کرنے میں کافی مددگار ہے۔ البتہ کشمیری بازار، روات اور دیول میں چوں کہ سڑک کی چوڑائی کافی ہے اور یہاں گاڑیوں، دکانوں اور لوگوں کا رش بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے بسا اوقات ان بازاروں میں ٹریفک جام ہوجاتا ہے جس سے سیاحوں کو غیر ضروری ٹینشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھوربن کا پرل کانٹینینٹل ہوٹل اور یہاں نوہولز پر مشتمل گالف کلب نیز یہاں کے گھنے سرسبز وشاداب جنگلات، ہائیکنگ ٹریک اور خاص کر یہاں مختلف النوع پرندوں کی چہچہار اورٹھنڈے یخ بستہ اُبلتے ہوئے پانی کے قدرتی چشمے یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے ہیں۔ مری سے ایوبیہ اور نتھیا گلی کی جانب کے مناظر اور بھی زیادہ دلکش اور حسین ہیں۔ اس جانب بھی سڑک کا معیار بہترین ہے۔ راستے میں بندروں کے غول، زمین پر اُترے ہوئے بادل، لہلہاتی ہوئی ہوائیں اور تا حد نگاہ پہاڑوں اور نیچے ڈھلوانوں میں پھیلے ہوئے گھنے اور خوبصورت جنگلات قدرت کا حسین نظارہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں ایوبیہ کے نیشنل پارک، چیئر لفٹ، نتھیا گلی اور باڑہ گلی کے درمیان واکنگ ٹریک اور نتھیا گلی بازارکا تذکرہ نہ کرنا یقینازیادتی ہوگی۔ اسی طرح مری کا ذِکر کرتے ہوئے مال روڈکی خوبصورت دیسی اشیا سے بھری ہوئی دکانوں ،لذیز کھانوں،چائے اور کافی کے لیے مشہور ریستورانوں، یہاں کی تاریخی جامع مسجداور اس چھوٹے سے شہر میں قائم کئی تاریخی گرجا گھروں،پنڈی پوائنٹ اور پتریاٹاکی چیئر لفٹ کی سیر اور راستے میں خوبصورت سدھائے ہوئے سفید اور بھورے گھوڑوں کی سواری کے ذکر کے بغیر مری کی سیر اور یہاں کی سیاحت کاحال احوال بیان کرنا ادھورا ہوگا۔ مری اور گردونواح کے علاقوں میں سیاحوں کی سہولت کے لیے ہسپتالوں، ڈاک، بینکوں، ریستورانوں، پارکس، ریڈنگ روم، کار پارکنگ، ٹریفک سسٹم اور سب سے بڑھ کر پرامن اور سیاح دوست موحول کی فراہمی ایسے اقدامات ہیں جن کی وجہ سے یہاں سال کے بارہ مہینے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کا رش بھی جوبن پرہوتا ہے۔ مری کی جس بات نے مجھ ناچیز کو سب سے زیادہ متاثر کیا اورجو کسی بھی سیاحتی مقام کو سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کلیدی اہمیت کی حامل بات ہے وہ مقامی لوگوں کا سیاحوں کے ساتھ انتہائی دوستانہ رویہ اور ہر مقامی فرد چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیور ہے، دکاندار، ویٹر، پولیس کانسٹیبل ہے یا غبارے بیچنے والا یہ سب بالاتفاق سیاحوں کومقامی روایات کے مطابق اپنا مہمان اور بزنس مینجمنٹ کے اصول کے تحت اپنا معزز گاہک سمجھ کر ڈیل کرتے ہیں اور شاید بہت ساری دیگر وجوہ کے ساتھ ساتھ سیاحوں کا مری کی جانب جھکاؤکا سب سے بڑاسبب یہی سیاح دوست رویہ ہے ۔