آئین پامال کرنے والوں کوسزا ضرور ملے گی

247

Edarti LOHاب تو پاکستان میں فوج اور سویلین باقاعدہ آمنے سامنے آگئے ہیں۔ ایک طرف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ کوئی ایسی عدالت ہے جو آئین پامال کرنے والے ڈاکٹیٹر کو سزا دے سکے۔ تو دوسری طرف پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بہت واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان مقدم ہے قانون سے کوئی بالاتر نہیں۔ اخبارات نے دونوں بیانات کو اہمیت دی ہے۔ سیاسی رہنما اور فوجی رہنما میں فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاستدان بہت لمبی بات کرتا ہے اور فوج کی جانب سے ایک جملہ کہا جاتا ہے۔ اس ایک جملے میں سب کچھ ہوتا ہے۔ اور ریاست اور حکومت کا موازنہ جب بھی فوج کرے تو حکومت کو اس کا مطلب سمجھ لینا چاہیے کہ فوج جب ریاست کو مقدم رکھنے کی بات کرے گی تو اس کا کیا مطلب ہے۔ اسی لیے طاہر القادری بھی ریاست یا سیاست کا نعرہ لے کر میدان میں کودے تھے۔ اس سے قبل بھی جب میاں نواز شریف نے جہانگیر کرامت کے لیے استعفا کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تو جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں کورکمانڈرز کے اجلاس کے بعد ایک پیغام گردش کررہا تھا کہ اب کوئی جرنیل جہانگیر کرامت نہیں بنے گا۔ میاں نواز شریف بھی اس پیغام کو نہیں سمجھ سکے، انہوں نے جنرل پرویز کو بھی ہٹانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں فوج نے طے شدہ فیصلے کو عملی جامہ پہنادیا۔ اب جب کہ میاں نواز شریف اقتدار سے باہر ہیں اور ان کو آمروں کے خلاف فیصلوں اور ان کو سزا دلوانے کا خیال آرہا ہے، ان کا سوال ہے کہ کوئی ایسی عدالت ہے جو آئین پامال کرنے والے ڈکٹیٹر کو سزا دے سکے۔ میاں صاحب کے اس سوال کے جواب میں ازخود وہ سوال اُبھرتا ہے کہ آپ کے اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں ڈکٹیٹر کو کوئی سزا کوئی عدالت کیوں نہ دے سکی۔ آپ نے کسی عدالت کو ٹھوس مقدمہ بنا کر کیوں نہیں دیا، سارے مقدمے سیاسی اور میڈیا ٹرائل کی حد تک کیوں رہے۔ اسے اتفاق کہیں یا طے شدہ جواب….. کہ آرمی چیف نے اسی روز ایک جملہ کہا ہے کہ پاکستان مقدم ہے کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک جملہ کافی ہے۔ اس میں سب کچھ ہے، وہ وزیرستان کے کسی گروپ یا طالبان کے کسی گروپ کے مخاطب نہیں تھے۔ واضح بات ہے کہ کسی ایک فرد کی بات ہورہی ہے۔ اس کو مزید معنی پہنانے یا وضاحت کی ضرورت نہیں۔ بات سمجھ میں آجانی چاہیے۔ لیکن یہ تو فوج اور سویلین کی لڑائی ہے۔ یقیناًفوج نے پاکستان کے آئین کو بار بار پامال کیا ہے لیکن آئین بنانے والے سویلین بھی تو آئین کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ان کو کبھی کبھار کسی اور الزام میں سزا مل جاتی ہے لیکن پاکستان کے تمام حکمران بشمول سول و فوجی ایک ایسے آئین کو پامال کرتے ہیں جس کی سزا ملنے کی تاریخ اور وقت کا بھی اعلان ہوچکا ہے اور عدالت بھی سب کو پتا ہے کون سی ہے کہاں لگے گی چیف جسٹس کون ہوگا لیکن یہ اتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں یا ان کے اعصاب اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوچکی ہے کہ ان کو سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ وہ کیا کرتے چلے آرہے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے آج 70 برس گزرنے تک حکمرانوں نے اللہ کا آئین صرف پامال کیا ہے۔ اس پر عمل کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی، بعض نے تو اس آئین کا مذاق اُڑایا، اس میں نظام مصطفی نافذ کرنے کے خواہشمند جنرل ضیا الحق بھی شامل ہیں اور سوشلزم کو معیشت قرار دینے والے بھٹو بھی، ان لوگوں نے اللہ کے آئین کو نافذ نہیں ہونے دیا۔ ہاں کچھ انفرادی کام کر ڈالے جس کی وجہ سے اسلام اور اللہ کا آئین مزید بدنام کیا گیا۔ جنرل ضیا نے حدود آرڈیننس نافذ کیا، انہوں نے کچھ مزید چیزیں شامل کیں جیسے زکوٰۃ کا نظام رائج کیا، بار بار اسلام اور اس کے اصولوں کی بات کرتے رہے لیکن پورا اسلامی نظام بطور نظام رائج کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ہر کام کی اجازت ہے بس مارشل لا ضابطے کے دائرے میں کیاجائے۔ اسی طرح اللہ نے بھٹو صاحب سے اﷲ نے قادیانیوں کو کافر قرار دلوانے، جمعے کی چھٹی، شراب پر پابندی جیسے امور انجام دلوادیے، لیکن بطور نظام آئین اسلام کو نافذ نہیں کیا۔ باقی لوگ تو اتنے طاقتور رہے ہی نہیں کہ کچھ کر سکیں۔ ہاں میاں نواز شریف کو فوج نے دوسرے دور میں بہت طاقتور بنایا تھا لیکن انہوں نے یہ طاقت فوج ہی کے خلاف استعمال کی، اس کے ساتھ ساتھ سود کے حق میں مقدمہ کھڑا کردیا، اقتدار جنرل پرویز سے تنازع کے نتیجے میں چلا گیا۔ ہم میاں نواز شریف کے مطالبے کے حامی ہیں کہ آئین پامال کرنے والوں کو سزا ہونی چاہیے، صرف فوجی نہیں سول ڈکٹیٹروں نے بھی آئین کو پامال کیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے آئین کو پامال کرنے والوں کے لیے اعلان کیا جاچکا ہے کہ سب بڑا انصاف کرنے والا اللہ عدالت لگائے گا اور اس کے آئین کو پامال کرنے والوں کی سزائیں بھی قرآن میں بہت واضح کردی گئی ہیں۔ اگر ایسے لوگ اپنے بارے میں فیصلہ جاننا چاہتے ہیں تو سورہ مائدہ میں یکے بعد دیگرے تین آیات ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم ہیں، فاسق ہیں اور کافر ہیں، اور اگر اپنا حشر جاننا چاہتے ہیں تو سورۂ طہٰ کی آیت میں ان کو جواب مل جائے گا کہ جو لوگ اللہ کے ذکر سے اعراض برتتے ہیں اس کی معیشت تنگ کردی جائے گی اور انہیں قیامت میں اندھا کرکے اُٹھایا جائے گا۔ پھر وہ پوچھیں گے کہ ہم تو دنیا میں دیکھتے تھے ہمیں اندھا کیوں اُٹھایا گیا تو ان کو جواب دیا جائے گا کہ تم دنیا میں ہمارے احکامات کو نظر انداز کرتے تھے اس لیے ہم نے تمہیں اندھا اُٹھایا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سویلین اور فوجی حکمران تو سامنے کی بات کو نہیں سمجھ پاتے قیامت کو تو دور کی چیز سمجھتے ہیں میاں صاحب حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں بڑی عدالت میں سارے آئین شکن حاضر ہوں گے۔آپ بھی وہاں کے لیے تیاری کریں اور ڈکٹیٹر بھی۔