شہزاد سلیم عباسی
پیپلزپارٹی، ق لیگ اور پی ٹی آئی کی کشتیوں میں سوار ہونے کے بعد عائشہ گلالئی پرویز خٹک پر کرپشن اور عمران خان پر اخلاقی گراوٹ کے الزامات لگاتے ہوئے میڈیا اور پی ٹی آئی جنونیوں کے چنگل میں پھنس کر انصاف کی متلاشی نظر آرہی ہیں۔ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی بے تحاشا کرپشن پر اپنی ہی پارٹی کے سیاسی کارکنوں نے سوال اٹھانا شروع کردیے ہیں۔ پرویز خٹک کے خلاف برسر میدان چھ باغی ایم این ایزکا ٹولہ، عمران خان کے ہراول دستے کے شاہ سوار عاطف خان، شہرام خان، شاہ فرمان، فوزیہ قصوری اور حالیہ باغی لہر میں شامل ناز بلوچ اور اب عائشہ گلالئی نے انصافی نظام کے خلاف کمر کس لی ہے اور عن قریب کچھ مزید لوگ بھی کے پی حکومت کے خلاف کھل کر تحریک کا آغاز کریں گے جس کا اثر عام الیکشن پر ضرور ہوگا۔ کے پی حکومت کے سپہ سالار کو پرویز خٹک پر مائننگ اور جہانگیر ترین پر لگے ٹھیکوں کے الزامات پر کم از کم ایک انٹرنل پارٹی کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو چند دن میں کچا چٹھا نکال کر پارٹی لیڈر کے سامنے رکھے، تاکہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے۔ عائشہ گلالئی نے عمران خان، نعیم الحق اور بنی گالہ میں مے نوشی کی محفلوں سمیت دیگر ذاتی نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں جن میں انہوں نے عمران خان کے بیہودہ پیغامات بھیجنے، الگ ملاقات کرنے اور بعد ازاں نعیم الحق کی طرف سے الگ ملاقات کے لیے پیغام ملنے کا ذکر ہے جس سے بظاہر روشن خیال عمران خان کی ذات کو کچھ نہ کچھ نقصان پہنچا ہے۔ دیکھا جائے تو عمران خان کی زندگی کے ساتھ ایسی بے شمار چیزیں نتھی ہو چکی ہیں کہ اس طرح کی سچی یا جھوٹی چیزوں سے ان کی کرشماتی شخصیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پنڈورہ باکس کھلنے کے بعد اب دانشوری اسی میں ہے کہ عمران خان کو پارلیمانی پارٹی، کمیٹی یا کسی میڈیا فورم پر یہ بات واضح کردینی چاہیے کہ یہ سب جھوٹ کا مکروہ پلندہ ہے اور اگر عائشہ گلالئی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ عدالت جائیں۔ عمران خان اپنی میڈیا ٹیم کو ضرورت سے زیادہ ڈکٹیٹ نہ کریں، وگرنہ۔
خود کو تہذیب یافتہ، قبائلی، اپنے حقوق سے آگاہ اور تعلیم یافتہ کہنے والی گلالئی ایسے پیغامات موصول ہونے کے بعد بھی باعزت گھرانے کی چشم و چراغ ایسے غیر اخلاق شخص سے کیوں ملتی تھی؟ اگر انہیں بیہودہ پیغامات سے واقعی Harassment ہوئی تو پھر غیرت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے گھر بیٹھ جاتیں، فی الفور کسی مناسب فورم پر عمران خان کو مورد الزام ٹھیراتیں یا کم از کم پی ٹی آئی کو چپکے سے چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں چلی جاتیں۔ لیکن گلالئی نے ایسا نہیں کیا اور نہ جانے کس چکر میں مناسب وقت کا انتظار کیا جس سے ان کا موقف مبہم، غیر واضح اور سطحی ہونے کے ساتھ ساتھ انتقامی نظر آتا ہے۔ ایک چیز سمجھ سے بالاتر ہے کہ چار سال تک عمران خان کی بحیثیت رول ماڈل مثالیں دینے والی گلالئی نے اچانک کیوں دشنام طرازی شروع کردی۔ ممکنہ طور پر عائشہ گلالئی نے بھی فصلی بٹیروں کی طرح جب بھانپ لیا کہ پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا سیل کی انچارج شیریں مزاری نے ان کی میڈیا ٹاکس پر بھی پابندی لگا دی ہے، عمران خان نے ان کا نام کور کمیٹی سے نکال دیا ہے اور پبلک جلسوں میں خطابات کا موقع بھی ختم ہو گیا ہے تو سستی شہرت کے لیے سیاسی شعبدہ بازی کا گر آزمانے کا فیصلہ کیا ہو؟۔ بہرحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، مگر شہرت یا کرسی کے لالچ میں ہمیں جھوٹے الزامات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عمران اور عائشہ گلالئی دونوں ایک بات سمجھ لیں کہ دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ ہوتی ہے۔ عائشہ گلالئی کے الزامات کے بعد تحریک انصاف کے ملک شاہ محمد کی طرف سے قبائلی جرگے کے فیصلے کے ذریعے گھر مسمار کرنے اور ڈومیسائل ختم کرنے اور علاقہ بدر کرنے کی دھمکی دینا عمران خان کی ویسٹرن اپروچ کے برعکس ہے۔
عمران خان تو ہیومن رائٹس میں خواتین کو خاصی اہمیت دیتے ہیں، اگر عمران خان سچے ہیں تو انہیں شاہ محمد اور عائشہ کی بہن کے خلاف بیہودہ مہم جوئی پر فوری نوٹس لینا چاہیے۔
دوسرا ہاٹ ایشو مسلم لیگ ن کی نئی حکومت کا ہے۔ قائد ایوان شاہد خاقان عباسی نے 46 رکنی کابینہ تشکیل دے دی ہے۔ حکومت تو بدل گئی لیکن پالیسیاں وہی رہیں گی۔ شریف خاندان پر الزام جتنے بھی لگیں، نااہلی ہو یا ریفرنس، ن لیگ اب اگلی پانچ سالہ مدت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی اور مریم اورنگزیب کے مطابق نئے وزیر اعظم کے باوجود فیصلے تخت لاہور ہی کرے گا۔ اپنے ایک خوش اخلاق دوست علی حسن کی رفاقت یاد تھی اور اصرار خاص تھا کہ شاہد خاقان عباسی پر ضرور لکھوں تاکہ عوام الناس کو اپنے نئے وزیر اعظم کے بارے میں آگاہی ہو۔ تحریر کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے میں یہاں پر صرف دو باتیں کروں گا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو 200 ارب روپے کی ایل این جی کرپشن کا داغ صاف کرنے کے لیے عوام سے خطاب کرنا چاہیے اور ایل این جی اور پی آئی اے کی خستہ حالی کا جواب دے کر عوام کو مطمئن کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب قرون اولیٰ کی طرز سیاست اور بادشاہی نظام سے باہر نکل کر ملک کے لیے سوچیں۔ اور جتنا عرصہ رہیں ڈٹ کر رہیں اور کسی بھی سازش کا شکار ہونے کے بجائے خدمت خلق پر توجہ دیں اور پارٹی کے دفاع کو پارٹی کے میڈیا سیل پر چھوڑ دیں۔ ویسے بھی کچھ دنوں میں شہباز شریف کے نام سے پارٹی رجسٹر ڈ ہو جائے گی اور پارٹی صدارت بھی انہیں ملے گی۔