جگر گوشۂ رسول ﷺ سیدۃ النساء اہل الجنۃ جو تسلیم و رضا کا کامل نمونہ ہیں
کلیم چغتائی
وہ بہت ضعیف ہو چکے تھے !
ان کا تعلق قبیلہ بنو سلیم سے تھا ۔ اس وقت وہ سرکار رسالت مآب ﷺ کی پاکیزہ مجلس میں حاضر تھے اور اسلام لانے کی خواہش ظاہر کر رہے تھے ۔ روئے زمین پر ایک اور مسلمان کا اضافہ ہو رہا تھا ۔
’’ نبی کریم ﷺ نے بنو سلیم کے ضعیف شخص کو کلمہ پڑھوایا ، دین اسلام کے ضروری احکام اور مسائل کی تعلیم دی پھر ان سے پوچھا: کیا آپ کے پاس کچھ مال بھی ہے؟‘‘
جواب ملا، ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی ، بنو سلیم کے تین ہزار افراد میں ،سب سے غریب اور محتاج میں ہی ہوں ۔ ‘‘
’’ رحمتِ دوعالم ﷺ کی نگاہیں اپنے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کی طرف اُٹھ گئیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: آپ میں سے کون اس مسکین کی مدد کرے گا ؟‘‘
قبیلہ خزرج کے سردار اٹھے اور عرض کرنے لگے ،’’ میرے پاس ایک اونٹنی ہے جومیں پیش کرتا ہوں ۔ ‘‘
’’ یہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ تھے ، سید البشر ﷺ کے لبوں کو جنبش ہوئی : آپ میں سے کون ہے جو ان کا سر ڈھانک دے ؟‘‘
ایک صحابی ؓ اٹھے اور انہوں نے اپنا عمامہ اتار کر اسلام قبول کرنے والے ضعیف اعرابی کے سر پر رکھ دیا ۔ یہ حضرت علی ؓ تھے ۔
’’ پھر آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا ، کون ہے جو ان کی خوراک کا بندو بست کرے؟‘‘
حضرت سلمان فارسی ؓ نے ان صاحب کو ساتھ لیا اور مختلف گھروں پر دستک دی لیکن ہر صحابی ؓ کے گھر سے معذرت کی گئی کہ کھانے کا کوئی انتظام کرنے سے قاصر ہیں ۔ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا اور مسلمانوں کی مالی حالت مستحکم نہ تھی ۔
پھر حضرت سلمان فارسی ؓ ایک دروازے کی طرف بڑھے ، دستک دی اور پورا حال کہہ سنایا ۔
مکان کے اندر سے آواز آئی ’’ اے سلمان ؓ اللہ کی قسم آج گھر میں سب کو تیسرا فاقہ ہے ۔ دونوں بچے بھوکے سوئے ہوئے ہیں لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دوں گی ۔ جایے میری چادر شمعون کے پاس لے جایے اور اس سے کہیے کہ اس چادر کے عوض کچھ جنس دے دے ۔ ‘‘
حضرت سلمان فارسی ؓ چادر لے کر ، نو مسلم اعرابی کے ساتھ شمعون کے پاس پہنچے اور اسے تمام رو داد سنائی کہ یہ چادر کس نے بھیجی ہے اور کیا پیغام دیا ہے ۔ شمعون ایک یہودی تھا ۔ حضرت سلمان ؓ نے بات ختم کی تو شمعون پر سکتہ طاری تھا ۔ وہ شدید حیرت زدہ تھا ، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیسا نیا مذہب ہے جس کے ماننے والے خود بھوکے رہ کر مساکین کا پیٹ بھرتے ہیں ۔ اس کے دل میں توحید کی شمع روشن ہو چکی تھی ، وہ پکار اٹھا:’’ اے سلمان ؓ، خدا کی قسم یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی ہے ۔ تم گواہ ر ہو کہ میں ایمان لایا۔‘‘
پھر انہوں نے کچھ غلہ حضرت سلمان ؓ کے سپرد کیا اور چادر بھی واپس کر دی ۔ حضرت سلمان ؓ غلہ اور چادر لے کر اسی دروازے پر پہنچے جہاں سے چادر وصول کی تھی ۔ دونوں چیزیں گھر بھجوائیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں گھر میں موجود خاتون نے اناج پیس کر روٹیاں تیار کر دیں ۔
حضرت سلمان ؓ کہتے ہیں ۔ ’’ اس میں سے کچھ بچوں کے لیے رکھ لیجے۔‘‘ جواب ملتا ہے ، ’’جو چیز میں راہِ خدا میں دے چکی وہ میرے بچوں کے لیے جائز نہیں ۔ ‘‘
یہ خاتون تھیں سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ بنت محمد ﷺ جن کے عظیم ایثار نے نہ صرف ایک نومسلم اعرابی کو فاقہ کشی سے بچا لیا بلکہ ایک غیر مسلم کو اسلام کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی توفیق عطا کر دی ۔ آپ ؓ جگرگوشۂ رسول ﷺ ہیں ، امت مسلمہ کی خواتین کے لیے تسلیم و رضا کا نمونہ ہیں اور دنیا اور جنت کی خواتین کی سردار ہیں ۔
آپ ؓ وہ خوش قسمت خاتون ہیں جن کو اللہ کے حبیب نبی کریم ﷺسب سے بڑھ کرمحبوب رکھا کرتے تھے اور آپ ؓ کی ذاتِ اقدس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ؓ ہی کے ذریعے سید الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی نسل کو آگے بڑھایا ۔ سیدہ فاطمہ ؓ عظمت و رفعت کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جو اللہ اپنے بے حد پیارے بندوں کو عطا کرتا ہے ۔ آپ ؓ کے اعلیٰ اوصاف کی بنا پر آپ ؓ کو مختلف القاب دیے گئے ہیں جن میں چند یہ ہیں : زہراء( تازہ پھول کی طرح پاکیزہ )، بتول( اللہ کی سچی اور بے لوث بندی ) ، سیدۃ النساء اہل الجنۃ(جنت کی عورتوں کی سردار)، بضعۃ الرسول ﷺ( جگر گوشۂ رسول ﷺ)۔
سرور عالم ﷺ کی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی پیدائش اس زمانے میں عمل میں آئی جب قریش خانہ کعبۂ کی دیواروں کو ڈھا کر از سر نو تعمیر کرنے میں مصروف تھے ۔ یہ آنحضرت ﷺ کو نبوت عطا کیے جانے سے پانچ برس پہلے کی بات ہے ۔ اس وقت رسول پاک ﷺکی عمر 35 برس تھی ۔ سیدہ فاطمہ ؓ اپنی بہنوںمیں سب سے چھوٹی ہیں ۔
سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کو یہ مقام بلند حاصل ہے کہ آپ ؓ کو دو جہانوں کے سردار حضرت محمد ﷺ کی شفقت پدرسی میسر آئی اور نبی کریم کی مونس و غمخوار حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی مامتا بھر ی آغوش نصیب ہوئی ۔ ان دو عظیم ترین ہستیوں کے ہاتھوں پلنے والی حضرت بتول ؓ کو تعلیم و تربیت کی معراج حاصل ہوئی جوپہلے ہیی خوبیوں کا مرقع اور حیا، متانت اور پاکیزگی کا پیکر تھیں ۔ سیرت کی قدیم کتب میں حضرت فاطمہ ؓ کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں ان سے سیدۃ النساء کے بچپن کی ایک پاکیزہ اور نفیس تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے ۔
بچے بالعموم شریر اور کھیل کود کے شیدائی ہوتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ بچپن ہی سے بے حدمتین ، سنجیدہ اور سادگی پسند تھیں ۔ انہیں کھیلوں سے دلچسپی نہ تھی ، نہ ہی بہت اعلیٰ قسم کے کپڑے اور زیورات استعمال کرنے کا شوق تھا ۔ ایک بار آپ ؓ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ ؓکے کسی عزیز کی شادی تھی ۔انہوں نے اس موقع پر اپنی بچیوں کے لیے اچھے کپڑے اور زیور بنوائے لیکن حضرت فاطمۃ ؓ نے یہ کپڑے اور زیورات استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور سادہ لباس زیب تن کر کے تقریب میں شرکت کی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا سے بے نیازی کا وصف سیدۃ النساء ؓ کی فطرت کا جزو تھا اور اس کا اظہار بچپن ہی سے ہونے لگا تھا ۔
ننھی فاطمہ ؓ اپنے والد گرامی آنحضرت ﷺ اور والدہ محترمہ حضرت خدیجہؓ سے بہت محبت کرتی تھیں ۔ آپ ؓ اپنے والد محترم ﷺ کے افعال ، عادات ، گفتگو اور اطوار کو غور سے دیکھتی تھیں اور خود بھی وہی انداز اپنانے کی کوشش کرتی تھیں ۔ آپ ؓ شکل و صورت میں بھی نبی کریم ﷺ سے بہت مشابہ تھیں اور آپ ؓ کا انداز نشست و برخاست بھی آنحضرت ﷺ سے ملتا جلتا تھا جب بھی رسول اقدس ﷺ باہر سے گھر میں تشریف لاتے تو آپ ﷺ بلند آواز میں السلام علیکم کہتے ، پھر چند لمحات کے توقف کے بعد گھر میں داخل ہو جاتے ۔نبی کریم ﷺ کی چہیتی ننھی فاطمہ ؓ اپنے پیارے والد ﷺ کی آواز سن کر دوڑی آتیں اور آنحضرت ﷺ کو اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ سے بہت محبت تھی ۔ آپ ﷺ ایسے موقع پر اکثر اپنی بیٹی کو گود میں لے لیتے اور آپ ﷺ کی جبیں پر بوسہ دیتے ۔
حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کو اللہ نے بے پناہ ذہانت اور مثالی حافظہ عطا کیا تھا ۔ آپ ؓ اپنے والد گرامی ﷺ اور والدہ محترمہ ؓ سے اکثر دین کے بارے میں سوالات کرتیں ، ایک بار آپ ؓ نے اپنی والدہ سے پوچھا، ’’ اللہ تعالیٰ جس نے ہمیں اور دنیا اور ہر شے کو پیدا کیا ہے ، کیا وہ ہمیں نظر بھی آ سکتا ہے ؟‘‘ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے جواب دیا ، ’’ بیٹی ! اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ، اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور نیکی کریں ، اللہ نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے باز رہیں ، کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لائیں تو قیامت کے دن ہم ضرور اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے ۔ اس دن نیکی اور بدی کا حساب بھی ہو گا ۔‘‘
اس سوال و جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ بچپن ہی میں کس قدر ذہانت سے بھر پور سوالات فرمایا کرتی تھیں اور آپ ؓ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃؓ کتنے پیارے انداز میں ان سوالوں کے جواب دیا کرتی تھیں کہ بچی مطمئن بھی ہو جائے اور اس کی تربیت بھی ہوتی رہے ۔ رسول اللہ ﷺ جب گھر میں تشریف فرما ہوتے تو حضرت فاطمہ ؓ ، سرور دو عالم ﷺ کی زبان سے ادا ہونے والے رشد و ہدایت کے موتی ایک ایک کر کے محفوظ کر لیا کرتیں ۔ آپ ﷺ اپنی بیٹی کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے بندوں سے محبت کا درس دیا کرتے ۔جب حضور اقدس ﷺ گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو حضرت خدیجہ ؓ ننھی فاطمہ ؓؓ سے دریافت فرماتیں کہ آج اپنے ابا جان ﷺ سے کون کون سی باتیں سیکھی ہیں ۔ ننھی بتول ؓ کا حافظہ بہت اچھا تھا ، وہ فوراً تمام باتیں دہرا دیتیں ۔
اعلان نبوت کے چوتھے برس کے آغاز پر آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ﷺ اللہ کے احکام اب کھلے عام سنایے ۔ آپ ﷺ نے کھلے عام دعوت اسلام کا آغااز کر دیا ۔ اس وقت سے آپ ﷺ کے لیے آزمائشوں کا در کھل گیا ۔
ایک بار رحمت دو عالم ﷺ کعبۃ اللہ کے نزدیک نماز ادا فرما رہے تھے ۔ قریب ہی قریش کے کفار کی مجلس جمی ہوئی تھی ۔ ابوجہل نے کہا ، ’’ کاش اس وقت کوئی شخص فلاں قبیلے میں جاتا ، وہاں اونٹ ذبح ہوا ہے اس کی اوجھڑی اٹھا لاتا اور یہ شخص( محمدﷺ) جب سجدے میں جاتا تو اس کی پیٹھ پر رکھ دیتا ۔ ‘‘
عقیقہ بن ابی معیط نے کہا ، ’’ یہ کام میں کروں گا۔ ‘‘ وہ دوڑا ہوا گیا اور اونٹ کی اوجھڑی اٹھا لایا ، پھر اس نے یہ اوجھڑی ایسے وقت رسول اکرم ﷺ کی پشت مبارک پر رکھ دی جب آپ ﷺ سجدہ فرما رہے تھے ۔ اونٹ کی اوجھڑی بہت وزنی ہوتی ہے ۔ اس سے آنحضرت ﷺ کو شدید تکلیف پہنچی اس منظر کو دیکھ کر کفار بڑے خوش ہوئے اور قہقہے لگانے لگے ،ان کا حال یہ تھا کہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے کے اوپر گرے پڑتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ آپ ؓ جلدی سے حضور اکرم ﷺ کے گھر پہنچے اور واقعہ عرض کیا ۔ ان لمحات میں یہ سیدہ فاطمہ ؓ تھیں جو بے قرار ہو کر دوڑی آئیں ، انہوں نے اپنے پیارے باپ ﷺ کی پشت سے اونٹ کی اوجھڑی ہٹائی اور ہنسنے والے کفار سے فرمایا،’’ احکم الحاکمین تمہیں ان شرارتوں کی سزا دے گا۔‘‘
اعلان نبوت کے بعد13 ویں برس ذی الحجہ کے مہینے میں نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو ہجرت کی اجازت دے دی ۔ کچھ عرصے بعد آپ ﷺ بھی حضرت ابو بکر ؓ کی رقابت میں ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ مدینہ منورہ میں حضور اکرم ﷺ نے جب مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر شروع کروائی تو آپ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ مکہ معظمہ جا کر آپ ﷺ کے اہل و عیال کومدینہ منورہ لے آئیں ۔ حضرت زید ؓمکہ مکرمہ پہنچے اور ام المؤمنین حضرت سودہ ؓ ، حضورﷺ کی دو صاحبزادیوں حضرت ام کلثوم ؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراؓ ، اپنی زوجہ محترمہ حضرت ام ایمن اور صاحبزادے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو مدینہ منورہ لے آئے ۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آچکا تھا اور نبی کریم ﷺ اپنے جاں نثار صحابہ ؓ کے ہمراہ اسلامی تحریک کی قیادت فرما رہے تھے ۔ دین اسلام کی کرنیں بڑی تیزی سے پھیل رہی تھیں ۔ انہی دنوں رسول اکرم ﷺ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓ کے لیے نکاح کے کئی پیغام آئے لیکن حضور اکرم ﷺ نے سکوت فرمایا ۔ بعض روایتوں کے مطابق آپ ﷺ کو حکم الٰہی کا انتظار تھا ۔ پھر صحابہ کرام ؓ نے حضرت علی ؓ کو مشورہ دیا کہ آپ ؓ سیدہ فاطمہ ؓ کے لیے پیام بھیجیں ۔ انہوں نے کچھ تامل کے بعد حضور اکرم ﷺ سے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا ۔ آنحضرت ﷺ نے یہ درخواست قبول فرما لی ۔
آپ ﷺ کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ ﷺ جب بھی کسی صاحبزادی کا عقد کرنا چاہتے تو ان کے پاس تشریف لے جاتے اور بلند آواز میں فرماتے،’’فلاں شخص نے تمہارے لیے نکاح کا پیغام دیا ہے ۔‘‘ (جاری ہے)
اگر اس کے جواب میں آپ ﷺ کی صاحبزادی سکوت اختیار کرتیں تو حضور اکرم ﷺ سمجھ جاتے کہ بچی کو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ چنانچہ جب حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کے لیے پیغام بھیجا تو رسول کریم ﷺ نے اپنی پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ سے اس بارے میں دریافت کیا ۔ سیدہ بتول ؓ کی خاموشی ہی ان کی رضا مندی کا اظہار تھی ۔
اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حضرت انس بن مالک ؓ کو حکم دیا کہ وہ صحابہ کرام ؓ کو مسجد نبوی ﷺ میں بلا لائیں ۔ جب بہت سے اصحاب رسول ؓ مسجد نبوی ﷺ میں جمع ہو گئے تو حضور ﷺ نے منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا:’’ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ بنت محمد ﷺ کا نکاح علی ؓ ابن ابی طالب سے کر دوں ۔ میں آپ کے سامنے اس حکم کی تعمیل کرتا ہوں۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے خطبۂ نکاح پڑھا ۔ خطبہ کے بعد آپ ﷺ حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہوئے آپ ﷺ کے روئے مبارک پر مسکراہٹ تھی ۔ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے دریافت فرمایا،’’ میں نے چار سو مشقال چاندی کے مہر پر فاطمہ ؓ کو تیرے نکاح میں دیا ، کیا تجھے منظور ہے؟‘‘(بعض روایتوں میں مہر کی رقم پانچ سو درہم اور بعض میں 480 درہم بیان کی گئی ہے ) حضرت علی ؓ نے جواب دیا،‘‘ بسرو چشم‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے اس مبارک موقع پر دعا فرمائی ۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی دعا مانگی اور حاضرین میں شہد کا شربت اور کھجوریں تقسیم کی گئیں ۔
نکاح کی یہ تقریب اور سیدہ فاطمہ ؓ کی رخصتی کب ہوئی ، اس بارے میں مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مبارک تقریب غزوۂ بدر کے بعد اور غزوۂ احد سے پہلے یعنی رمضان 2ھ اور شوال 3 ھ کے درمیان منعقد ہوئی ۔ رخصتی کے بارے میں بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ نکاح کے ایک ماہ بعد رخصتی ہوئی اور بعض کا کہنا ہے کہ نکاح کے ساڑھے سات مہینے یا ساڑھے نو ماہ بعد رخصتی عمل میں آئی ۔
رخصتی کے دوسرے دن حضور اکرم ﷺ نے خواہش ظاہر کی کہ ولیمہ بھی کیا جائے ۔ حضرت سعد ؓ نے ایک بھیڑ کا تحفہ پیش کیا ۔ دیگر صحابہ کرام ؓ نے بھی مدد کی ۔ دعوت ولیمہ میں کھجور، پنیر ، جو کی روٹی اور گوشت پیش کیا گیا ۔ حضرت اسماؓ نے اس ولیمے کو اس زمانے کا بہترین ولیمہ قرار دیا ہے ۔
دونوں جہانوں کے سردار ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کو جہیز دیا اس کی تفصیل مختلف روایتوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے : ایک بستر مصری کپڑے کا ، ایک نقشین تخت ، چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ، ایک مشکیزہ ، مٹی کے دو برتن ، ایک چکی ، ایک پیالہ ، دو چادریں،ا یک جائے نماز ۔
جب سیدہ بتول ؓ رخصت ہو کر حضرت علی ؓ کے گھر تشریف لے گئیں تو حضور اکرم ﷺ تشریف لائے ۔ آپ ﷺ نے آنے کی اطلاع دی پھر اندر داخل ہوئے ۔ ایک برتن میں پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ اس میں ڈال دیے ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے حضرت علی ؓ کے سینے اور بازوئوں پر پانی چھڑکا اس کے بعد آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان پر بھی پانی چھڑک کر فرمایا:’’فاطمہ ؓ میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں بہترین شخص سے کی ہے ۔ ‘‘ پھر آپ ﷺ نے زوجین کے لیے دعا فرمائی اور واپس تشریف لے گئے ۔
حضرت فاطمہ ؓ رخصت ہو کر جس مکان میں گئی تھیں وہ حضرت علی ؓ نے کرائے پر لیا ہوا تھا ۔ یہ مکان مسجد نبوی ﷺ سے فاصلے پر تھا ۔ حضور اکرم ﷺ کو وہاں آنے جانے میں تکلیف ہوتی تھی ۔ ایک دن آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا:’’ مجھے اکثر تمہیں دیکھنے کے لیے آنا پڑتا ہے ، میں چاہتا ہوں تمہیں اپنے قریب بلا لوں ۔ ‘‘
حضرت حارثہ بن نعمان ؓ ایک دولت مند صحابی ؓ تھے ۔ وہ اپنے کئی مکانات آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر چکے تھے۔جنہیں حضور ﷺ نے ہجرت کر کے آنے والے صحابہ کرام ؓ کے حوالے کر دیا تھا ۔ حضرت حارثہ ؓ کو جب علم ہوا کہ رسول پاک ﷺ اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے قریب بلانا چاہتے ہیں تو وہ دوڑے ہوئے حضور اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا ، ’’ میں نے سنا ہے کہ آپ ﷺ سیدہ فاطمہ ؓ کو کسی قریبی مکان میں لانا چاہتے ہیں ۔ میں آپ ﷺ کے مکان سے متصل ایک مکان خالی کر دیتاہوں ۔ آپ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کو اس میں بلا لیجیے ۔ ‘‘ حضور ﷺ نے حضرت حارثہ ؓ کی تعریف کی اور ان کے لیے دعا فرمائی ۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی رہائش گاہ سے متصل مکان میں منتقل ہو گئے ۔
3ھ کو اللہ تعالیٰ نے اس مبارک جوڑے کو ایک فرزند سے نوازا ۔ آنحضرت ﷺ کو علم ہوا تو آپ ﷺ بہت مسرور ہوئے ، آ کر نو مولود کے کان میں اذان دی ، اپنا لعاب دہن چٹایا ، پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا ، دو مینڈھے ذبح کیے اور نو مولود کے سر کے بال اتروا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ فرمائی ۔ حضور ﷺ نے بچے کا نام ’’ حسن‘‘ رکھنے کی ہدایت فرمائی ۔ 4ھ میں رب العالمین نے سیدہ فاطمہ ؓ کو دوسرا بیٹا عطا فرمایا حضور ﷺ تشریف لائے ۔ بچے کے کانوں میں اذان دی پھر آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کوبچے کا عقیقہ کرنے اور بچے کے بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کرنے کی ہدایت کی ۔ اس بچے کا نام حضور اکرم ﷺ نے ’’ حسین ‘‘ رکھا ۔
سرور عالم ﷺ اپنے ان دونوں نواسوں سے حد درجہ محبت فرماتے تھے ۔ حضرت حسن ؓ کو تقریباً آٹھ سال اور حضرت حسین ؓ کو تقریباً سات سال آنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہنے اور آپ ﷺ سے تربیت پانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ حضرت فاطمہ ؓ کی دیگر اولادوں میں حضرت زینب ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ شامل ہیں ۔ سیرت نگاروں نے آپ ؓ کے ایک صاحبزادے حضرت محسن ؓ کا بھی ذکر کیا ہے جو کمسنی میں فوت ہو گئے تھے ۔
حضرت فاطمہ ؓ کی ذات امت مسلمہ کی خواتین کے لیے ایک روشن مثال اور کامل نمونے کی حیثیت رکھتی ہے ۔آپ ؓ نے اپنا گھر بھی سنبھالا ، شوہر اور بچوں کی پوری خدمت کی ، عبادت کا پورا پورا اہتمام فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریک میں بھی بھر پور حصہ لیا ۔ آپ ؓ غزوات میں شریک ہوتی تھیں ۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مجاہدین اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں ۔ حضرت حسن ؓ کی ولادت ہوئی تو کچھ دنوں بعد اُحد کا معرکہ پیش آیا ۔ حضرت فاطمہ ؓ کا حال یہ تھا کہ شیر خوار بچے کو آغوش میں لیے میدان اُحد میں دوڑی آئی تھیں ۔ غزوۂ میں رسول پاک ﷺ زخمی ہو گئے تو ان کے چہرہ مبارک کا زخم سیدہ فاطمہ ؓ ہی نے دھویا اور مرہم پٹی کی تھی ۔ غزوۂ خندق کے موقع پر فاطمہ ؓ نے روٹی پکائی اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کی ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: آج تین دن بعد یہ لقمہ مجھے ملا ہے ۔
سیدہ فاطمہ ؓ بے حد کریم النفس اور رحم دل تھیں ۔ آپ ؓ کی ذات ، ایثار و قربانی کا دوسرا نام تھی ۔ ایک بار حضرت علی ؓ نے ساری رات ایک باغ کو سینچا۔ اجرت میں آپ ؓ کو تھوڑ سے جو حاصل ہوئے ۔ آپ ؓ جو لے کر گھر آئے ۔ حضرت فاطمہ ؓ نے ایک حصہ لے کر آٹا پیسا اور کھانا تیار کیا ۔ ابھی کھانا تیار ہوا تھا کہ کسی مسکین نے دستک دی اور سوال کیا ۔ سیدہ ؓ نے سارا کھانا دے دیا ۔ پھر بچے ہوئے اناج کا ایک حصہ لے کر پیسا اور کھانا پکایا ، ابھی یہ کھانا تیار ہوا ہی تھا کہ ایک یتیم نے دروازے پر آ کر ہاتھ پھیلادیا ۔ سیدہ ؓ نے یہ سارا کھانا اس کے حوالے کر دیا ۔ پھر آپ ؓ نے جتنا بھی اناج بچا تھا اسے پیس کر کھانا پکایا لیکن اسے کھانے کی نوبت نہ آئی تھی کہ ایک مشرک نے آکر کھانا مانگا ۔ آپ ؓ نے سارا کھانا اسے دے دیا ۔ آپ ؓ اور آپ ؓ کے اہل خانہ نے اس دن فاقہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ اس گھرانے کے پاکیز نفوس کے بارے میں سورۃ الدھر کی یہ آیت نازل ہوئی ،( ترجمہ ):
’’ اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ‘‘
سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کے پڑوس میں ایک صاحب رہتے تھے جوپہلے یہودی تھے پھر اللہ کی ہدایت سے مسلمان ہو کر اصحاب رسول ﷺ میں شامل ہو گئے ۔ اس پر ان کے رشتے دار ان سے ناراض ہو گئے ۔ ان کا کاروبار تباہ ہو گیا اور وہ مفلسی کی زندگی بسر کرنے لگے ، اسی عالم میں ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ۔ ان کے رشتے داروں میں سے کوئی نہ آیا ۔ ایسے موقع پر یہ حضرت فاطمہ ؓ تھیں جوفوراًپہنچیں اور آپ ؓ نے میت کو غسل دیا اور کفن پہنایا ۔
ایک بار آپ ؓ چکی پیس رہی تھیں کہ پڑوس سے کراہنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ آپ ؓ فوراً پڑوس میں پہنچیں ۔، معلوم ہوا کہ ایک خاتون دردِ زہ میں مبتلا ہیں اور ان کی جان خطرے میں ہے ۔ آپ ؓ نے گھر والوں کو تسلی دی اور ایک کنیز کے ساتھ مل کر ان خاتون کی اتنی اچھی طرح دیکھ بھال کی کہ بچہ صحیح سلامت پیدا ہو گیا اور زچہ بھی بالکل ٹھیک رہیں ۔
سندھ10ھ میں حضور ﷺ نے حجۃ الوداع فرمایا ۔اس مبارک سفر میں سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ بھی حضور ﷺ کے ساتھ تھیں ۔ 11ھ میں جدائی کی گھڑیاں آن پہنچیں ۔ آنحضرت ﷺ شدید علیل ہو گئے ۔ آخری ایام میں آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ہاں مقیم تھے ۔ آپ ﷺ کی تیمار داری کے لیے حضرت فاطمہ ؓ آئیں تو حضور ﷺ نے بڑی محبت و شفقت سے پاس بٹھایا پھر ان کے کان میں آہستگی سے کوئی بات کہی جسے سن کو سیدہ ؓ رو پڑیں پھر حضور ﷺ نے کوئی بات ان کے کان میں فرمائی جسے سن کر سیدہ ؓ ہنسنے لگیں ۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے پوچھا، ‘‘ اے فاطمہ ؓ ، تمہارے ابا جان نے تم سے کیا کہا؟َ‘‘ سیدہ ؓ نے فرمایا’’ جو بات حضور ﷺ نے چھپا کر کہی ہے میں اسے ظاہرنہ کروں گی ۔ ‘‘
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے اس واقعہ کی تفصیل دوبارہ دریافت فرمائی تو سیدہ فاطمہ ؓ نے بتایا ۔’’ پہلی بار حضور ﷺ نے مجھ سے کہا کہ حضرت جبرئیل ؑ سال میں میرے ساتھ ہمیشہ ایک بار قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، اس سال خلافِ معمول دوبار دور کیا ہے ، اس سے قیاس ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے ۔ یہ سن کر میں رونے لگی ۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھے ملو گی اور تم جنت کی خواتین کی سردار ہو گی ۔ اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور میں ہنسنے لگی ۔‘‘
نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا تو سیدہ ؓ پر گویا رنج و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ سیرت نگاروں کے مطابق اس کے بعد کسی نے حضرت فاطمہ ؓ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ۔ آپ ؓ ہر وقت رنجیدہ اور ملول رہنے لگیں ۔ وہ سخت نحیف اور کمزور ہو گئیں ، جب ضعف اور نقاہت بہت بڑھ گئی تو آپ ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کی زوجۂ محترمہ حضرت اسماء ؓ بنت عمیس کو بلوا کر ان سے فرمایا ، ‘‘ میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردے کا خاص خیال رکھا جائے ۔‘‘ حضرت اسماء ؓ نے کہا کہ میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ان پر پردہ ڈال دیتے ہیں ۔ ‘‘ پھر انہوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں انہیں جوڑا اور ان پر کپڑا ڈال کر دکھایا ۔ حضرت فاطمہ ؓ نے اس طریقے کو پسند فرمایا ۔
رمضان المبارک11ھ میں رسول اللہ ﷺ اللہ کی پیاری بیٹی حضرت سیدہ فاطمہ ؓ سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں ۔ ( اس تاریخ پر مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے ۔ مختلف مؤرخین کے مطابق حضرت فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے وصال کے دو ماہ ، چار ماہ ، چھ ماہ ، آٹھ ماہ ، یا اٹھارہ ماہ بعد وفات پائی ، لیکن زیادہ مؤرخین کا اتفاق چھ ماہ کی روایت اور3رمضان المبارک11ھ کی تاریخ پر ہے )۔
حضرت فاطمہ ؓ کے وصال کی خبر پھیلی تو لوگ مبہوت رہ گئے ۔ حضرت علی ؓ سخت رنجیدہ ہوئے تھے ۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابو بکر ؓ نے اور دوسری روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔
سیدہ فاطہ ؓ جہاں ایک سعادت مند اورنیک بیٹی تھیں وہاں بہت خدمت گزار اور صابر الفطرت بیوی بھی تھیں ۔ آپ ؓ نے حضرت علی ؓ کا ہمیشہ احترام فرمایا ،ان کی اطاعت کی اور خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ یہ گھران زوجین کے پاکیزہ ، خلوص آگیں اور محبت آمیز تعلقات کی سچی تصویر تھا ۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ اور سیدہ بتول ؓ کے درمیان کاموں کی تقسیم فرما دی تھی ۔ گھر کے اندر جتنے کام تھے،مثلاً چکی پیسنا ، جھاڑو دینا ، کھانا پکانا وغیرہ وہ سب حضرت فاطمہ ؓ کے سپرد تھے ۔ باہر کے کام مثلاً بازار سے سودا لانا ، اونٹ کو پانی پلانا ، پانی بھر کر لانا وغیرہ یہ سب کام حضرت علی ؓ کے ذمہ تھے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ بے حد محنتی تھیں ۔ آپ ؓ کی طبیعت ناساز ہونے کے باوجود بھی گھر کے تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ ایک بار سیدہ ؓ کو بخار آ گیا ۔ رات بھر آپ ؓ شدید بے چین رہیں ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی رات بھر جاگتا رہا ۔ رات کے پچھلے پہر آنکھ لگ گئی ۔ فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا فاطمہ ؓ وضو کررہی تھیں ۔ میںنے مسجد جا کر نماز ادا کی واپس آیا تو دیکھا کہ فاطمہ ؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں ۔ میں نے کہا ، ’’ فاطمہ ؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا؟ رات بھر تمہیں بخار رہا ۔ صبح اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا ،ا ب چکی پیس رہی ہو۔ اللہ نہ کرے زیادہ بیمار ہو جائو۔‘‘
حضرت فاطمہ ؓ کاجواب تھا :’’ میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جائوں تو کچھ پروا نہیں ۔ میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کے لیے اور چکی پیسی آپ ؓ کی اطاعت اور بچوں کی خدمت کے لیے ۔ ‘‘
حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ گھر کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے بھی ایک لمحہ کے لیے اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوتی تھیں ۔ حال یہ تھا کہ آپ ؓ چکی پیستی تھیں یا کوئی اور کام کر رہی ہوتی تھیں اور آپ ؓ کی زبان پر قرآن کی آیات جاری ہوتی تھیں ۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ میں فاطمہ ؓ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر کرتی جاتی تھیں ۔ آپ ؓ بہت عبادت گزار تھیں لیکن حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ عبادت کی کثرت کی وجہ ے آپ ؓ گھر کے کاموں میں فرق نہ آنے دیتی تھیں ۔
رسول اللہ ﷺ کامکان متصل ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے آیات قرآنی اور دیگر نصیحتیں سننے کا موقع ملتا رہتا تھا ۔ جب بھی حضور ﷺ آخرت کا ذکر فرماتے حضرت فاطمہ ؓ شدت احساس سے رو پڑتیں ، عبادت کے وقت بھی آپ ؓ کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا ، آنکھیں اشک بار ہو جاتیں اور اکثر مصلیٰ آنسوئوں سے تر ہو جاتا تھا ۔
جب اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور مجاہدین کو فتوحات حاصل ہونے لگیں تو مدینہ منورہ میںمال غنیمت آنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ حضور ﷺ اللہ کی ہدایت کے مطابق مال غنیمت کا صرف پانچواں حصہ اپنے پاس رکھ کربقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر دیتے،پھر اپنا حصہ بھی راہِ خدا میں دے دیتے۔ آپ ﷺ نے اپنا حصہ اپنی ازواج مطہرات ؓ اوراپنی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓ تک کو دینا گوارا نہ فرمایا ۔ا یک بار حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا کہ ’’ چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں اور چولہا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ بدل گیا ہے ۔ آج حضور اکرم ﷺ کے پاس مال غنیمت میں بہت سی کنیزیں آئی ہیں ، جائو اپنے ابا جان و سے ایک کنیز مانگ لائو۔‘‘
سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن شرم کی وجہ سے کوئی بات عرض نہ کر سکیں اور واپس آ گئیں ۔ دوسرے دن آپ ؓ حضرت علی ؓ کے ساتھ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچیں اور اپنی تکالیف بیان کر کے ایک کنیز کی درخواست کی ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ میں تمہیں کوئی کنیز خدمت کے لیے نہیں دے سکتا ۔ ابھی اصحاب صفہ کے لیے انتظامات کرنے ہیں ۔ میں ان لوگوں کو کیسے بھول جائوں جنہوںنے اپنے گھر بار چھوڑ کر فاقہ کیا ہے ۔ ‘‘
یہ سن کر حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے ۔ رات میں آنحضرت ﷺ سیدہ فاطمہ ؓح کے گھر تشریف لائے اور فرمایا:’’ تم جس چیز کی خواہش مند تھیں ، اس سے بہتر ایک چیز میں تم کو بتاتا ہوں ۔ ہر نماز کے بعد دس بار سبحان اللہ ، دس بر الحمد اللہ اور دس بار اللہ اکبر پڑھا کرو اور سونے سے پہلے 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔ یہ عمل تمہارے لیے لونڈی اورغلام سے بہتر ہو گا ۔ ‘‘
حضرت فاطمہ ؓ نہ صرف اپنے شوہر اور بچوں کی بلکہ عزیزوں ، رشتہ داروں اپنے جاننے والوں اور اہل محلہ کی خدمت کے لیے بھی تیار رہتی تھیں ۔
حضرت فاطمہؓ کی خوشدامن حضرت فاطمہ ؓ بنت اسد کا کہنا ہے کہ ’’ میری جس قدر خدمت فاطمہ ؓ نے کی ہے شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کی خدمت کی ہو ۔ ‘‘
حضرت سیدہ فاطمہ ؓ ہر معاملے میں حضور اکرم ﷺ کی ہدایت کو پیش نظر رکھتی تھیں اور آپ ﷺ کے اشارۂ ابرو کو خوب سمجھتی تھیں ۔ ایک بار حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو باہر سے کچھ رقم بھیجی ۔ اس زمانے میں حضور ﷺ کہیں باہر تشریف لے گئے تھے ۔ آپ ﷺ واپس آئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے اس خوشی میں ایک نقشین پردہ خرید کر دروازے پر لٹکا دیا اور چاندی کے دو کنگن بنوا کر ہاتھوں میں پہن لیے ۔ حضور ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے خلاف معمول گھر میں قدم نہ رکھا اور واپس چلے گئے ۔ حضرت فاطمہ ؓ اس پر بہت رنجیدہ ہوئیں اور رو پڑیں ۔ آپ ؓ نے حضور ﷺ کی بے رُخی پر غور کیا تو یہی بات سمجھ میں آئی کہ میں نے دروازے پر نقشین پردہ لگا دیا ہے اور ہاتھوں میں کنگن پہن لیے ہیں ۔ شاید اس وجہ سے حضور ﷺ ناراض ہو گئے ہیں ۔ آپ ؓ نے پردہ اتار دیا اور کنگن ہاتھوں سے نکال دیے پھر یہ دونوں چیزیں حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے ہاتھوں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں بھجوا دیں ۔
بچے پہنچے تو آنحضرت ﷺ بڑے خوش ہوئے ۔ آپ ﷺ نے بیٹی فاطمہ ؓ کے لیے دعا فرمائی ۔ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا: یہ میرے اہل بیت ہیں نہیں چاہتا کہ وہ ان زخارف( زرق برق آرائش) سے آلودہ ہوں۔( سنن ابو دائود ، سنن نسائی)۔
آنحضرت ﷺ کو حضرت فاطمہ ؓ سے بے حد محبت تھی ۔ جب کبھی آپ ﷺ سفر پر جاتے تو سب سے آخرمیں حضرت فاطمہ ؓ سے ملنے کے لیے جاتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ؓ سے آ کر ملتے ۔ حضور ﷺ تقریباً ہر روز حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشرف لے جاتے ، ان کی کوئی مشکل ہوتی تو اسے حل کرنے کی کوشش فرماتے ۔ آپ ﷺ کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ ﷺ اس میں سیء ایک حصہ حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں ضرور بھجوادیتے ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک حصہ ہے ، جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی( صحیح بخاری) ۔ ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا: فاطمہ ؓ اہل جنت کی خواتین کی سردار ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے بچوں حسن اور حسین ؓ کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔
حضرت اسامہ ؓ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے کسی ضرورت سے رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر دستک دی ، آپ ﷺ کسی چیز کو چادر میں لپیٹے ہوئے باہر تشریف لائے میں جب اپنی ضرورت بیان کر چکا تو میں نے دریافت کیا ۔
’’ یہ آپ ﷺ کیا لپیٹے ہوئے ہیں ؟‘‘
آپ ﷺ نے چادر ہٹائی تو اس میں حسن ؓ اور حسین ؓ برآمد ہوئے جو آپ ﷺ کی گود میں چڑھے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے ، میری بیٹی کے جگر کے ٹکڑے ہیں ۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی ان دونوں سے اور ہر شخص سے جو ان سے محبت رکھتا ہے ،محبت فرما۔( جامع ترمذی)۔
حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ نے اٹھائیس یا انتیس برس کی عمر پائی ، چنانچہ آپ ؓ کو زیادہ احادیث روایت کرنے کاموقع نہیں ملا ۔ آپ ؓ سے اٹھارہ یا انیس احادیث مروی ہیں ۔ امام دار قطنی ؒ نے حضرت فاطمہ ؓ سے روایت کردہ احادیث پر مشتمل ایک کتاب تیار فرمائی تھی جس کا نام مسند فاطمہ ؓ رکھا تھا ۔ حضرت سیدہ بتول ؓ علم حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں ۔ آپ ؓ شعر بھی کہتی تھیں ۔ آپ ؓ کی بعض نصیحتوں کا بعد میں فارسی میں ترجمہ کیا گیا ۔