عبدالباسط وہ شخص ہیں جو پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے انتہائی مشکل اور پیچیدہ دنوں میں دہلی میں کئی برس تک تعینات رہے۔ انہیں بھارت کے رویے، حالات وواقعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کشیدگی سے بھرپور اس دور میں عبدالباسط سمیت پاکستانی سفارت کار شدید خطرت کا شکار بھی رہے انہیں مختلف دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ حریت کانفرنس کی قیادت کے ساتھ ان کی ملاقاتوں پر بھارت میں طوفان اُٹھایا جاتا رہا۔ عبدالباسط دہلی میں سر اُٹھا کر چلنے والوں میں شامل رہے۔ انہوں نے اپنے ملک اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مقدمہ لڑنے میں کسی جھجک، احساس کمتری اور ضعف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہیں دیکھ کر نوے کے کشیدہ حالات میں دہلی میں تعینات ایک پاکستانی ہائی کمشنر ریاض کھوکھر کی یاد تازہ ہوتی رہی جنہیں بھارت کے کثیر الاشاعت میگزین انڈیا ٹوڈے نے ’’ون مین آرمی‘‘ لکھا تھا۔ عبدالباسط نے بھی دہلی کی صفدر جنگ روڈ پر نیلے گنبدوں کی عمارت یعنی پاکستانی ہائی کمیشن میں خطرات اور خدشات کے باوجود اعتماد کے ساتھ بات کی۔ اب اپنی ملازمت کے خاتمے کے بعد انہوں نے دوباتیں کی ہیں جو ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’اُم الفساد‘‘ یعنی تنازعات کی ماں اور جڑ مسئلہ کشمیر ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا دونوں ملکوں میں تعلقات میں حقیقی اور پائیدار بہتری پیدا نہیں ہو سکتی۔ دوم یہ کہ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کا خونیں کھیل جاری ہے اس کا مرکزی کردار بھارت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ڈیپ فریزر میں ڈال کر پاکستان اور بھارت میں تعلقات بہتر بنانے کی سوچ حد درجہ احمقانہ رہی ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت میں امن کی آشائیں ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں۔ سرحدوں پر دھمالیں ڈالنا، ایک دوسرے کے منہ میں لڈو ٹھونسنا، موم بتیاں جلانا اور ایک مسلمہ سرحد کو لکیر کہہ کر تاریخ کا مذاق اُڑانا، ہوٹلوں میں پیپل ٹو پیپل رابطوں کے نام پر شام اور جام کی محفلیں سجانا خود فریبی اور تضیع اوقات کے سوا کچھ نہیں۔ برصغیر میں حقیقی اور پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ اس حقیقت سے نظریں چرانے کے باعث برصغیر بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ اسی دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے زیر اہتمام پیپلز لبریشن آرمی کی نوے ویں سالگرہ کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے کیک کاٹنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور پاکستان خطے کے دو اہم دفاعی کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے مسئلے پر چین کی حمایت پر شکریہ بھی ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات باہمی اعتماد پر مبنی ہیں۔ دونوں افواج کے درمیان خطے میں قیام امن کے لیے قریبی تعاون جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین نے افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کی ہے۔ پیپلزلبریشن آرمی کی سالگرہ کی یہ تقریب اور اس میں آرمی چیف کا انداز بیاں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب بھارت اور چین کے درمیان دوکلام سکم کا تنازع سنگین صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ چین باربار بھارت کو اس علاقے سے انخلا کرنے کی وارننگ دے رہا ہے مگر بھارت ٹال مٹول سے کام لے کر حالات کی سنگینی سے نظریں چُرا رہا ہے۔ یہ کبوتر کی طرح بلی دیکھ کر آنکھیں بند کر نے کی روش ہے۔
بھارت کی قومی سلامتی کے مشر اجیت دووال کے دورہ بیجنگ اور وہاں اپنے ہم منصب ینگ جی چی سے ملاقات کی مگر یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے اور اجیت دووال کو بے نیل ومرام ہی لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد ہی دہلی میں چینی سفارت خانے نے پندرہ صفحات پر مشتمل بیان جاری کیا جس میں بھارت کو دوکلام سے غیر مشروط فوجی انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس سے صاف اندازہ ہورہا ہے کہ بھارت کی طرف سے فوج کی تعداد کم کرنے کے باوجود اس تنازعے پر دونوں ملکوں کے درمیان فوری مصالحت کا کوئی امکان نہیں۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان ہلکا پھلکا فوجی تصادم ہوجاتا ہے تو اس میں چین کی دفاعی شراکت داری پاک فوج کا کردار نہایت اہم ہوجائے گا۔ بھارت اس وقت امریکا کی مکمل سرپرستی اور اسرائیل کے بھرپور تعاون کا فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کو کچلنے میں تو اسرائیل کا کھلا تعاون بھارت کو حاصل ہے۔ ایسے میں پاکستان کی کوشش اور خواہش ہو گی کہ پیپلزلبریشن آرمی کی ہاتھ میں پھنسی ہوئی بھارتی فوج کی گردن مزید پھنسی رہے۔ بھارت بھی پاکستان کو جوابی طور پر گھیرنے کے لیے پاکستان کے اندر اپنے اسٹرٹیجک اثاثوں کو متحرک کر سکتا ہے۔ افغانستان کی سرزمین اور وسائل پر پوری طرح بھارت کا تصرف ہے۔ پاکستان میں ’’امریکن سنڈی‘‘ جو کسی بھی شکل و صورت میں موجود ہے اس موقع پر امریکا کے دفاعی شراکت دار بھارت کی حمایت میں عملی طور پر سرگرم ہو سکتی ہے۔ اس منظر نامے میں پاکستان اور چین کی افواج کے درمیان دفاعی تعاون کا عملی اور علامتی اظہار خاصا معنی خیز ہے۔