سر سید احمد خاں اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ 

728

zc_Sued Jawed Anwerسرسید احمد خاں ؒ (وفات 1898) اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ (وفات 1979) میں مشترک صرف ایک چیز تھی اور وہ تھا ان کا اخلاص۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں پر ان دونوں کے بہت گہرے اثرات ہیں۔ مقصد ایک ہونے کے باوجود فکری لحاظ سے یہ دو متضاد دھاروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
سرسید احمد خاں کا مقصد ملک میں ایک سیاسی تبدیلی لانا تھا، ’’تعلیمی تحریک‘‘ کے ذریعے انہوں نے اس مقصد کو حاصل کر لیا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا مقصد بھی ملک میں ایک سیاسی تبدیلی لانا تھا، ’’سیاسی تحریک‘‘ کے ذریعے وہ اس مقصد کے حصول میں ناکام رہے۔
سرسید احمد خاں ؒ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مسلمانوں میں رائج نظام تعلیم اور اس کے نتیجے میں قائم معاشرے میں مغربی تصور سیاست سما نہیں سکتا۔ بھلا توحید، رسالت اور آخرت کے آفاقی تصورات، اور ایک اعلیٰ اخلاقی اور اجتماعی مسلک، کے ساتھ ’’قومیت‘‘ (Nationalism) اور ’’جمہوریت‘‘ (Democracy) کے محدود تصورات کے لیے کہاں کوئی گنجائش نکل سکتی تھی۔ سرسید خاں کو یہ بات معلوم تھی۔ رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعے بھی وہ یہ کام کر رہے تھے، لیکن اس کے ذریعے کوئی ہمہ گیر تبدیلی نہیں لائی جا سکتی تھی۔ تعلیمی تحریک اور تعلیمی انقلاب کے ذریعے وہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا، اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ مطلوبہ نتائج نکل آئے۔ ان کے پاس موقع تھا (مسلمانوں کی انگریز حکومت کے آگے مکمل سپردگی کے بعد)، وسائل تھے، ذرائع تھے اور کارکنان تھے (انگریزی حکومت کی طرف سے)۔ واضح رہے کہ سرسید احمد خاں اسی افکار مغرب سے مسلمانوں کی بھلائی چاہتے تھے۔ تاہم دو قوموں (ہندو اور مسلم) والی ریاست میں اکثریت کی حکومت والی جمہوریت بھی انہیں نا پسند تھی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی ان کے اس خیال کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’سرسید احمد خاںؒ کے دور میں جو رائے قائم کی گئی تھی (یعنی اکثریت کی حکومت والی جمہوریت نا منظور) وہ ہرگز غلط نہ تھی البتہ اگر کسی چیز کو غلط کہا جا سکتا ہے تو وہ ان کی پالیسی ہے جو اس مصیبت سے بچنے کے لیے انہوں نے اختیار کی اور اس کو بھی اس زمانے کے حالات سامنے رکھ کر غلط قرار دیتے ہوئے ایک صاحب فکر کو تامّل کرنا چاہیے۔‘‘ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان، جلد اول)
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ انگریزی نظام تعلیم سے جو سیاسی تصورات مسلم امت میں جاری ہوئے ہیں اس نے پوری امت کا ذہن بدل دیا ہے۔ ایک جگہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں کہ ’’وہ نظام تعلیم جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا ہے، اس کے تحت اپنی نسلوں کا ذہن تیار کرنا آپ کے نزدیک مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کا ذریعہ ہے، اور اس نظام کے تحت آپ خود اپنے خرچ سے درس گاہیں بنا کر ان کے نام اسلامیہ اسکول، اور اسلامیہ کالج اور مسلم یونیورسٹی رکھتے ہیں۔ حلاں کہ یہ پورا نظام تعلیم انسانیت کی تشکیل ایسے نقشے پر کرتا ہے جو اسلامی نقشے کے عین برعکس ہے۔‘‘ ’’ہمارے گردو پیش افکار، نظریات، اصول اخلاق، طرز تمدن، معیار تہذیب، قوانین معاشرت و معیشت، نظام حکومت، اور سیاست، غرض ایک دنیا بدلتی جا رہی ہے اورا س کی ہر چیز ہمارے اجتماعی مزاج اور ہماری قومی طبیعت کے بالکل خلاف ہوتی جاتی ہے۔‘‘ (تحریک آزادی ہند اور مسلمان جلد اول)۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے پاس نہ موقع تھا، ذرائع و وسائل، اور نہ کارکنان کی بڑی تعداد۔ انگریز جیسے تیسے ملک چھوڑ کر جا رہا تھا۔ کانگریس جمہوریت اور متحدہ قومیت کے سیاسی نظریات کے تحت پورے بھارت پر ایک قوم (ہندو) کی اکثریتی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی۔ وہ اکثریتی حکومت کا تصور کیا تھا؟ اس کے سب سے بڑے مبلغ جواہرلال نہرو کے الفاظ میں ’’دراصل جمہوری حکومت کے معنی یہ ہیں کہ اکثریت، اقلیت، کو ڈرا کر اور دھمکا کر اپنے قابو میں رکھتی ہے‘‘ (میری کہانی، جواہر لال نہرو)۔ ’’سوسائٹی کی موجودہ کشمکش یعنی قومی جنگ اور پھر طبقات کی جنگ کا تصفیہ جبر کے سوا کسی اور صورت سے ممکن نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پہلے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کرنا ہو گا، کیوں کہ جب تک بہت بڑی جماعت ہم خیال نہ ہو جائے، اس وقت تک نظام تمدن کو بدلنے کی کوئی تحریک مضبوط بنیاد پر قائم نہ ہو سکے گی۔ لیکن اس کے بعد تھوڑے لوگوں پر جبر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ (میری کہانی، جواہر لال نہرو)
آج جو بات مودی کہہ اور کر رہا ہے وہی بات جواہر لال نہرو ابتدا میں ہی کہہ رہا تھا۔
تو ایک طرح متحدہ قومیت کا اژدہا تھا جو مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو نگلنے کے لیے کھڑا تھا، اور بعض بڑے بڑے علماء کرام علمی اور لاعلمی میں جواہر لال نہرو کی قوم پرستانہ بولیاں بولنے لگے تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس اکثریتی، یک قومی جمہوریت (متحدہ قومیت) کے خلاف زبردست علمی اور صحافتی حملے کیے اور مسلمانوں کے اندر داخل ہونے والے نہرو گاندھی کے فلسفہ قومیت کے بت کو توڑ دیا (پڑھیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’مسئلہ قومیت‘‘ اور ’’تحریک آزادی ہند‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین)۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مضامین بڑے پیمانے میں تقسیم ہونے لگے کیوں کہ یہ دو قومی نظریہ (ہندو، مسلم دو قوم ہیں، اور قومیت کی بنیاد عقیدہ ہے نہ کہ وطن اور جغرافیہ) کی تبلیغ و اشاعت کے لیے بہترین علمی مواد تھا۔
جب دو قومی نظریہ کو قبول عام حاصل ہو گیا اور مسلم لیگ کی تحریک آگے بڑھ گئی تو انڈین مسلم لیگ کے قائدین، ان کے انداز سیاست، اور ان کے پروگرام سے یہ بات واضح ہوتی گئی کہ آئندہ پاکستان میں آنے والی مسلم حکومت بھی انہی خطوط پر قائم ہوگی جیسے بھارت میں قائم ہونے جا رہی ہے، یعنی، جمہوریت (لبرل)، قومیت (’’اسلام‘‘ کی جگہ ’’مسلم قوم پرستی‘‘ بھی جاہلیت کی ایک شکل ہے جس نے دیگر بہت سی قومیتوں کو جنم دیا) اور سیکولرزم (لادینیت) کی بنیاد پر۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مسلمانوں کے ان جاہلی تصورات پر بھی تابڑ توڑ حملہ کیا۔ انہوں نے پاکستان کی کبھی مخالفت نہیں کی (میرے پاس مولانا کی ساری سیاسی تحریریں، کتب اور مضامین موجود ہیں)، بلکہ آنے والے پاکستان کا درست سیاسی اور اخلاقی قبلہ کیا ہونا چاہیے اس پر ڈھیر سارا مواد چھوڑا اور راستہ متعین کیا۔ بعد میں نواب بہادر یار جنگ کی مسلم لیگ میں شمولیت اور ان کے قائد ملت بنے اور قائد اعظم پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے کے باعث مسلم لیگ کا بھی قبلہ کچھ حد تک درست ہوتا گیا۔ قراد داد مقاصد پاکستان، لاہور، اور انڈین مسلم لیگ کے آخری عوامی جلسہ عام مقام کراچی میں، قائد ملت نواب بہادر یار جنگ نے پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الاللہ۔ کے نعرے لگوا کر اور قائداعظم محمد علی جناح سے تصدیق کرا کے اپنی منزل کو واضح کر دیا تھا۔
تاہم پارٹی میں شامل امراء اور زمیندار، ان کی فکر، اور عملی زندگی اور مجموعی طور پر تحریک کے رخ کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا اور ان کو یقین ہو گیا تھا کہ اس راستے سے اسلام نہیں آئے گا۔ چنانچہ انہوں نے کانگریس (متحدہ قومیت) اور مسلم لیگ (اسلام کے بجائے قومی مفاد پرستانہ سیاست) دونوں دھاروں کو رد کر کے ’’جماعت اسلامی‘‘ کی تشکیل دی۔ دسیوں سال کی محنت کے بعد اس کے پہلے اجلاس میں پورے برصغیر سے تقریباً 100 افراد جمع ہو سکے تھے۔ وہ ہوا کے بالکل مخالف رخ (لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے درست رخ) پر سفر کر رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کی بھرپور کوشش یہی تھی کہ ایک اسلامی دستور اور اس کے مطابق ریاست اور تمدن کی تشکیل ہو۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے پیش نظر اب یہ تھا کہ اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد حکومت کے وسائل اور ارادہ سے ملک کا تعلیمی نظام تبدیل ہو گا۔ لیکن اس منزل کا اب تک کم ہی فاصلہ طے ہو سکا۔
اب سوال یہ ہے کہ سرسید احمد خاںؒ جو خود ایک پرانے نظام تعلیم اور ایک مدرسہ سے فارغ تھے، انہوں نے مغربی طرز سیاست کو اسلامی نظام پر کیوں ترجیح دی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سرسید احمد خاںؒ کے سامنے ا سلامی نظام کی شکل میں جو کچھ تھا وہ ملوکیت کا گلا سڑا نظام تھا جس نے تمدن میں جمود پیدا کر دیا تھا۔ سیاست میں شورائیت کی جگہ خوشامدیت اور معاشرت میں سنت کی جگہ نفسانیت، اخلاق میں شجاعت کے بجائے شقاوت آچکا تھا۔ سرسید احمد خاںؒ کو ملوکیت کی جگہ مغرب کا پارلیمنٹ بھا گیا۔ یا یوں کہا جائے کہ مغرب کا سیاسی نظام انہیں اسلام سے زیادہ قریب لگا۔ یہ ایک وجہ تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کی عنایات، قدردانی، ملکہ برطانیہ کی ذاتی میزبانی وغیرہ نے انہیں انتہائی مرعوب (mesmerize) کر دیا تھا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ملوکیت اور مغربیت (سیکولرزم، جمہوریت، نیشنلزم اور کیپٹیلزم) دونوں کو رد کر دیا۔ وہ ’’خلفائے راشدین کے دور کا احیا چاہتے تھے۔ (پڑھیے ان کی کتاب ’’خلافت اور ملوکیت‘‘، ’’اسلامی ریاست‘‘، اور ’’سود‘‘)۔ اور اس کے لیے سیاست کے میدان میں کود پڑے اور اپنی ہر چیز داو پر لگا دی۔ یہ ٹھیک وہی کام تھا جو حسینؓ بن علیؓ نے کربلا میں جنگ کے میدان میں کیا تھا۔ حسینؓ کو اس کے نتائج معلوم تھے۔ لیکن انہوں نے اپنے خون سے خلافت اور ملوکیت کے درمیان ایک گہری لکیر کھینچ دی۔ سید مودودیؒ کو بھی نتائج معلوم تھے تاہم انہوں نے سیاست کے ذریعے ملوکیت اور مغربیت کو رد کر کے اسلامی خلافت کا راستہ دکھا دیا۔ جماعت اسلامی کی تشکیل، انتخاب، شورائیت، احتساب (امیر سے لے کر ادنیٰ کارکن تک) اور تنقید کی بنیاد پر کی گئی (خلافت راشدہ کے سیاسی روایات)۔
آج کی جماعت اسلامی جو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے فکر کی وارث ہے اس کے پاس اتنی طاقت (نفری اور وسائل) ہے کہ وہ بیک وقت سیاسی اور تعلیمی تحریک دونوں چلا سکتی ہے اور اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جیسے جیسے تعلیمی تحریک آگے بڑھے گی سیاسی فتوحات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ جب کہ ’’سیاسی پارٹنرشپ‘‘ منزل کو کھوٹا کرتی جائے گی۔