پاکستان کے نظام میں وائرس یا ۔۔۔؟

288

zr_M-Anwerوزارت عظمیٰ کے عہدے سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نظام میں ’وائرس‘ موجود ہے جو ایک منتخب وزیراعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دیتا۔ اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک منتخب وزیراعظم نے اوسطاً ڈیڑھ برس کا عرصہ اپنے منصب پر گزارا جب کہ ایک فوجی آمر نے ملک پر اوسطاً 9 برس تک حکومت کی۔ نواز شریف یہ باتیں دراصل اس لیے کررہے ہیں کہ اس بار ان کا ان کے خاندان کا احتساب کیا جارہا ہے۔ نواز شریف کو اپنے خاندان تک ’’محدود احتساب‘‘ پر تشویش ہے جس کا اظہار انہوں نے مذکورہ اجلاس میں بھی کیا۔
پاناما کیس پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آئے دس دن سے زائد ہوچکے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف اب تک اس فیصلے کے نتیجے میں اپنی نااہلی کا دکھ بھلا نہیں پارہے۔ وہ شدید صدمے میں مبتلا لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل عدالت کے فیصلے کے سوا اور کوئی گفتگو نہیں کررہے، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کی باتیں اور قوم سے کیے گئے وعدے بھی اب انہیں یاد نہیں رہے۔ میاں نواز شریف کا دکھ واقعی کم نہیں ہے۔ مگر یہ صدمات ان کے لیے کوئی نئے بھی تو نہیں ہیں۔ انہیں ایسے ہی حالات کا سامنا 1993 اور 1999میں بھی تھا۔ میاں صاحب کی بدقسمتی ہے کہ وہ تین بار بھاری ووٹوں سے وزیراعظم بنے ہیں اور تینوں مرتبہ مدت مکمل کرنے سے قبل وزارت عظمیٰ سے اتر جاتے ہیں۔ تیسری اور ممکنہ طور پر آخری بار وہ عدالتی کارروائی کے تحت کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار پاکر وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین عہدے سے دور ہوئے۔ 1993میں میاں صاحب کو پہلی بار اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزام میں وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا تھا۔ دوسری بار سابق صدر پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999 کو ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ نواز شریف پر 1993 سے کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں جب کہ ہر بار ملک کی عسکری قوت کو بھی ان کی حکومت سے شکایتیں رہیں، اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا قصور کیا ہے، میں نے تو ایک پائی کی کرپشن نہیں کی‘‘۔
جب سے نواز شریف عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار پائے۔کچھ زیادہ ہی پریشان اور دکھی نظر آرہے ہیں۔ اس صدمے میں انہوں نے یہ بھی انکشاف کردیا کہ ’’ان کی نااہلی کا فیصلہ ہوچکا تھا اور صرف جواز ڈھونڈا جا رہا تھا اور جب کچھ نہیں ملا تو معمولی سی بات پر نکال دیا گیا‘‘۔ موصوف صادق و امین نہ ہونے کی بات کو معمولی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں جھوٹ بولنا اور امانت دار نہ ہونا کوئی گنا ہی نہیں ہے۔ اب سوچنا قوم کو ہے کہ انہوں نے کس شخص کو وزیراعظم کی سیٹ پر بٹھادیا تھا؟ فکر کی بات یہ نہیں کہ کون کون اور کیسے کیسے لوگ حکومتی عہدوں پر مسلط ہوجاتے ہیں بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ اب بھی نواز شریف کا استقبال کرکے انہیں شیر سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں صحافی انور لودھی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ: ’’زمانہ بدل گیا ہے، پہلے لوگ چور کو گدھے پر بٹھا کر چور چور کہتے ہوئے چکر لگواتے تھے، اب جی ٹی روڈ پر جیپ میں بٹھاکر شیر شیر کہہ کر چکر لگواتے ہیں‘‘۔
لیکن ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے مجھے یقین ہے کہ یہ سب ملک اور قوم کی بہتری کے لیے ہورہا ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آئندہ چند روز میں جمہوریت اور سیاست کے نام پر کرپشن کرنے والی دیگر شخصیات بھی عدالت کے کٹہرے میں آئیں گی جس کے بعد قوم کے سامنے یہ لوگ ’’نااہل ہی نہیں کرپٹ بھی قرار پائیں گے‘‘۔ ایسا اس لیے ہوگا کہ اللہ کی زمین پر مکافات ایک حقیقت ہے اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ جس نے جیسا کیا اسے ویسا ہی بھگتنا ہے اور وہ بھگتے گا۔ جس کی شروعات الحمدللہ ہوچکی ہے۔
ویسے تو مجھے ضرب عضب اور کراچی کے آپریشن کے شروع ہونے کے فوری بعد جو اقدامات کیے جارہے تھے اسی سے یقین ہوچکا تھا کہ ’’پاکستان بدل ہی نہیں رہا بلکہ خوشحال بھی ہورہا ہے‘‘۔ کسی بھی ملک کی خوشحالی کا دارومدار وہاں کے سیاسی اور عدالتی نظام پر منحصر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کے سیاست دانوں کی اکثریت کرپٹ ہے اس لیے ان پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ ہمارے سیاست دان اپنے مفادات کے حصول کے لیے جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں حالاں کہ ان کی اپنی جماعتوں میں آمریت ہوتی ہے۔ بڑی جماعتوں کے لیڈر اپنی جماعت میں ایک آمر جیسے ہوتے ہیں۔ آج جو باتیں سیاست دانوں کو کرنی چاہیے وہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کررہے ہیں۔ آرمی چیف کا حالیہ بیان کہ ’’ہم ایک ایسے پرامن پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں قانون کی عملداری ہوگی، ہر شہری ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا جب کہ فوج عوام کی توقعات پر پوری اتری ہے‘‘۔
قوم کو اپنی فوج سے صرف یہ توقعات ہیں کہ وہ سرحدوں کی حفاطت کے ساتھ ملک کے اندر موجود آستین کے سانپوں سے بھی سختی سے نمٹے اور لوگوں کو ایک ایسا پرامن ماحول فراہم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے جہاں لوگ نہ صرف آزادی اور بلا ڈر و خوف اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔ اور انہیں کوئی ڈرانے کا تصور بھی نہ کرسکے۔ آج عوام کے حقوق کی باتیں کرنے والے دن رات صرف اپنی ذات کی باتیں کررہے ہیں انہیں عوام کے حقوق کا کوئی خیال ہی نہیں رہا۔ وہ بس اپنے مفادات کے لیے ملک کے نظام اور عدلیہ پر بھی تنقید سے گریز نہیں کررہے۔ وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے صرف اپنی کرسی جانے کی فکر تک محدود ہوچکے ہیں۔ اگر یہ سیاست دان اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو اب بھی ان ہی کی جماعت کی حکمرانی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی جماعت کی رہنمائی کے بھی اہل نہیں رہے۔ شاید یہی وجہ سے کہ وہ صدمے سے باہر نہیں آرہے۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے سابق صدر نواز شریف الیکشن کمیشن کی جانب سے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 کے تحت نیا صدر منتخب کرانے کے نوٹس کے بعد اپنے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اپنی پارٹی کا نیا صدر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالاں کہ مذکورہ ایکٹ کے تحت پارٹی کا صدر بنانا نہیں ہوتا بلکہ اسے منتخب کرنا ہوتا ہے۔کیا مسلم لیگ کے تمام کارکن نواز شریف کے بعد شہباز شریف کو بغیر کسی دباؤ کے پارٹی کا صدر منتخب کرانا چاہیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا درست جواب ہی مسلم لیگ نواز کے اندر جمہوری نظام کی دلیل ہوگا؟۔ ملک کی سیاسی جماعتیں جب سیاست دانوں کی جائداد بن جائیں تو اس سوال کا درست جواب کس طرح سامنے آئے گا؟ آج مسلم لیگ نے بحالت مجبوری اگر شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا بھی دیا تو یہ کون سا ایسا فیصلہ ہے جو ملک اور قوم کی بہتری کے لیے کیا گیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی تو قومی ائر لائن کے چیئرمین بن کر اسے ہی تباہی سے دوچار کرچکے ہیں۔ ایسے میں ملک کے نظام کے حوالے سے خدشات پیدا نہ ہونا ناممکن بات ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جنہیں قوم ’’وائرس‘‘ کہتی ہے مگر نواز شریف کو ملک کے نظام میں وائرس نظر آرہا ہے۔ حالاں کہ وہ تو اب سسٹم کے لیے نااہل قرار پاچکے ہیں۔ جب کہ عوام تو یہ سمجھتے ہیں کہ وائرس تو ہماری چند بڑی سیاسی جماعتوں کے نظام میں آمریت کے روپ میں موجود ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پاک وطن کی حفاظت کرے اور مفاد پرست اور وائرس زدہ سیاست دانوں کو ملک کے نظام سے کوسوں میل دور کردے، آمین۔