مفتی مجیب الرحمن
امام بخاریؒ (متوفی 256ھ) کے زمانے میں احادیث مبارکہ کی سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں، کئی مصنفین ومحدثین کا اس زمانے میں دور دورہ تھا، ایک ایک محدث کے سینکڑوں شاگرد ہوا کرتے تھے، ان سب کے باوجود جو قبولیت اللہ تعالیٰ نے امام بخاریؒ اور ان کی کتاب کو نصیب فرمائی وہ دوسروں کے حصے میں نہیں آئی، اس کے اسباب و وجوہات پر نظر کرتے ہوئے علما نے ارشاد فرمایا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد بزرگوار نے اپنے بچے کے لیے حلال اور پاکیزہ غذا کا اہتمام کیا تھا اور حرام اور مشتبہ مال سے اپنے اہل وعیال کی حفاظت فرمائی تھی۔ جس حلال کی برکت اتنے بڑے علمی کارنامے کے ذریعے ظاہر ہوئی۔ بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ (قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب) کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ انسان کے اس کارنامے کو یہ درجہ حاصل ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ علما نے ارشاد فرمایا کہ اس درجے کے حاصل ہونے میں ان کے والد کا کھانے کے سلسلے میں کمال احتیاط کو بڑا دخل ہے، جب کہ ان کے والدؒ نے انتقال کے موقع پر اپنے کثیر مال کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ میرے مال میں کوئی درہم حرام تو درکنار شبہے کا بھی نہیں ہے۔ (فتح الباری) اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنی آمدن کے ذرائع پر نظر رکھے، پاکیزہ اور طیب کی تلاش میں رہے اور حرام وناپاک مال سے اجتناب کرے۔
ایک مرتبہ امام بخاریؒ دریائی سفر کررہے تھے کہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں تھیں، ایک شخص نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کیا اور امام بخاریؒ کو اس پر اعتماد ہوگیا۔ اپنے احوال سے اس کو مطلع کیا، یہ بھی بتادیا کہ میرے پاس ایک ہزار اشرفیاں ہیں۔ ایک صبح جب وہ شخص اٹھا تو اس نے چیخنا شروع کیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفی کی تھیلی غائب ہے، چنانچہ جہاز والوں کی تلاشی شروع ہوئی۔ امام بخاریؒ نے موقع پاکر چپکے سے وہ تھیلی دریا میں ڈال دی۔ تلاشی کے باوجود وہ تھیلی نہ مل سکی تو لوگوں نے اسی کی ملامت کی۔ سفر کے اختتام پر وہ شخص امام بخاریؒ سے پوچھتا ہے کہ آپ کی وہ اشرفیاں کہاں گئیں؟ امام صاحب نے فرمایا: میں نے ان کو دریا میں ڈال دیا، کہنے لگا کہ اتنی بڑی رقم کو آپ نے ضائع کردیا؟ فرمایا کہ میری زندگی کی اصل کمائی تو ثقاہت (اعتبار) کی دولت ہے، چند اشرفیوں کے عوض میں اس کو کیسے تباہ کرسکتا تھا؟ (مقدمہ کشف الباری)
نیز طلبا کے ساتھ شفقت کا یہ عالم ہوتا کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں: آپؒ کی غذا بہت کم تھی اور طلبہ پر بہت زیادہ احسان وکرم فرماتے تھے۔ امام بخاریؒ کی یہ خاص صفت بخاری پڑھے ہوئے اساتذہ کرام کو اپنانی چاہیے اور طلبہ کو اپنا غلام یا نوکر سمجھنے کی بجائے ان پر احسان وکرم کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ طلبہ اساتذہ کے لیے دو طرح سے محسن ہیں، ایک تو یہ کہ انہی کے طفیل دنیا میں روزی ملتی ہے اور انہی کے ذریعے آخرت کی سرخروئی ہے۔ یہ طلبہ ہمارے علوم کے محافظ اور اس کو نشرکرنے والے بنیں گے، انہی کے واسطے ہمارا فیض عالم میں پہنچے گا، طلبہ کے ساتھ ترش روئی ونازیبارویہ خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارلینے کے مترادف ہے۔ غور کیجیے! امیر المؤمنین فی الحدیث جب طلبہ کے ساتھ احسان وشفقت کا معاملہ کرسکتے ہیں جن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے تو ہمارا کیا اعتبار؟
نماز بندۂ مومن کی معرا ج ہے، اللہ تعالیٰ سے قرب الٰہی کا ذریعہ ہے، صحابہ کرامؓ کی حالت نماز میں ایسی ہوتی کہ گویا وہ خشک لکڑی ہیں، دو رکعت نماز کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرلیا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے اتنا لگاؤ تھا کہ عبادت کرتے ہوئے پائے مبارک پر ورم آجاتے، کوئی ادنیٰ سا معاملہ پیش آتا تو نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ اسی نماز کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل میں تعلیم دی کہ نماز میں اتنا استحضار پیدا کرو کہ نماز میں یہ تصور قائم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کو تم دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ تصور تو قائم کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہے ہیں، اس سے تمہیں عبادتوں میں احسانی کیفیت حاصل ہوگی۔ (مشکوۃ) امام بخاریؒ کی نماز کیسی احسانی کیفیت سے معمور تھی، آپ اس واقعے سے اندازہ لگائیے کہ ایک دفعہ آپؐ نماز پڑھ رہے تھے، بھڑ نے آپ کے جسم پر سترہ دفعہ کاٹ دیا، جب آپؒ نے نماز پوری کی تو کہا کہ دیکھو! کونسی چیز ہے جس نے مجھے نماز میں تکلیف دی ہے؟ شاگردوں نے دیکھا تو بھڑ تھی جس کے کاٹنے سے ورم آگیا تھا، آپؒ سے جلدی نماز ختم کرنے کی بابت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ میں جس سورت کی تلاوت کررہا تھا اس کے ختم کرنے سے قبل نماز ختم کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ (فتح الباری)