نریندر مودی کے گرو جی سے ملاقات

251

zc_Jilaniیہ بات مئی 1964 کی ہے۔ میں اور دلی میں پاکستان ٹائمز کے نمائندے اسلم شیخ، کانگریس کی مرکزی فیصلہ سازکمیٹی، AICC کا اجلاس کور کرنے ممبئی گئے تھے۔ یہ اجلاس کئی لحاظ سے اہم تھا۔ اوّل، اجلاس سے صرف چند ہفتہ قبل، پنڈت نہرو نے، شیخ عبداللہ کو گیارہ سال کی قید کے بعد رہا کیا تھا جس پر کانگریس میں نہرو کے خلاف بغاوت بھڑک رہی تھی، پھر چین کے ساتھ جنگ میں خفت آمیز شکست کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا۔ نہرو شکست خوردہ، اور اپنی مقبولیت کی آخری سطح پر تھے جہاں سے بغاوت کے سائے گہرے ہوتے نظر آتے تھے۔ پھر یہ اجلاس نہرو کی زندگی کا آخری اجلاس ثابت ہوا۔
اس اجلاس کے دوران، ہمارے ایک صحافی دوست، امریکی اخبار بالٹی مور سن کے بیورو چیف، پران سبھر وال ہماری طرف لپکے اور پوچھا کہ آپ راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ کے گرو گول والکر سے ملنا چاہیں گے؟ ہم سمجھے پران ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن پران سبھروال نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ نہیں مذاق بالکل نہیں ہے، گرو گول والکر علاج کے لیے ممبئی آئے ہوئے ہیں۔ آپ ان سے مل کر اور وہ آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔ میں ملاقات کا اہتمام کر دیتا ہوں۔ ہم نے کہا کیوں نہیں۔
دوسرے روز ہم لوئر پیریل کے علاقے میں ایک تین منزلہ عمارت میں داخل ہورہے تھے۔ دروازے پر خاکی نیکر پہنے آر ایس ایس کے دو کارکن، محافظوں کی طرح کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ دوسری منزل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہم داخل ہوئے، سامنے ایک تخت پر گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے گرو گول والکر نیم دراز بیٹھے تھے۔ شانوں تک دراز کالے بال، سینے کو چھوتی ہوئی لمبی چھدری سفید ڈاڑھی، باریک گول فریم والی عینک پتلی سے ناک پر جمی ہوئی تھی، ایک نظر دیکھنے میں زار روس کے دربار والے جادو گر راس پوتین لگ رہے تھے۔
ہمارے کمرے میں دخل ہوتے ہی گرو گول والکر نے سنبھل کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن شائد نقاہت کی وجہ سے وہ سنبھل نہ سکے۔ فوراً دو کارکنوں نے انہیں بیٹھنے میں مدد دی۔ یہ دو کارکن ان کے محافظوں کی طرح کھڑے تھے۔
انہیں پہلے سے اطلاع تھی کہ پاکستانی صحافی ان سے ملنے آئے ہیں۔ پوچھنے لگے کہ ہم ممبئی کس سلسلے میں آئے ہیں۔ ہم نے کہا کہ اے آئی سی سی کا اجلاس کور کر نے کے لیے۔ اس پر وہ زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا وہ کانگریس کا جو ڈراما ہو رہا ہے۔
ہم نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ بھی اس شہر میں ہیں اور آر ایس ایس کے بانی سے نیاز حاصل ہورہا ہے۔ باریک انگلیوں والے اپنے لمبے لمبے ہاتھ لہرا کر انہوں نے فوراً ٹوکا۔ نہیں نہیں میں آر ایس ایس کا بانی نہیں ہوں، بانی تو ڈاکٹر جی ہیگواڑ تھے۔ جب آر ایس ایس قائم ہوئی تھی تو اس وقت میں ہندو یونیورسٹی بنارس میں پڑھاتا تھا۔ ڈاکٹر جی مجھے آر ایس ایس میں لائے تھے اور سن چالیس میں اپنے دیہانت (انتقال) سے پہلے مجھے تنظیم کا ’’سرکاروایا‘‘ جنرل سیکرٹری مقرر کیا تھا پھر ان کے دیہانت کے بعد مجھے سرچالک (سربراہ) بنایا گیا۔
ایک سوال جو ہمیشہ سے میرے ذہن میں ابھرتا رہا ہے وہ میں گرو گول والکر سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ بتائیے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں سے دشمنی کی حد تک مخالفت کیوں؟ کہنے لگے میں کمیونسٹوں کا بھی سخت مخالف ہوں کیوں کہ وہ بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح اس لحاظ سے غیر ملکی ہیں یہ غیر ملکی نظریہ سے منسلک ہیں۔ میں انہیں ملک کا داخلی دشمن تصور کرتا ہوں۔
مگر ہیں تو یہ اس دیش کے رہنے والے، یہیں پیدا ہوئے ہیں ان کے آباو اجداد اس دھرتی کے باسی تھے اور یہ سب اپنے آپ کو ہندوستانی کہلاتے ہیں، میں نے کہا۔ گرو گول والکر کہنے لگے ’’میرا سیدھا سادا کہنا ہے کہ جو لوگ ہندو مت میں نہیں ہیں وہ بے حد بد قسمت ہیں اور ان کا اس دیش سے کوئی سمبندھ نہیں اور انہیں یہاں رہنے کو کوئی ادھیکار نہیں۔ مسلمان اور عیسائی باہر سے اس ملک میں آئے، انہیں ہندوستانی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق ہے۔
میں نے یہ دلیل پیش کرنے کی ہمت کی کہ باہر سے جو لوگ ہندوستان آئے مثلاً مغل انہوں نے اس ملک کو اپنا وطن تصور کیا اور اس ملک کو بہت کچھ دیا۔خوب صورت اور شاندار عمارتیں، موسیقی اور تابناک تہذیب اس کا ثبوت ہے۔ کہنے لگے، مسلمانوں سے پہلے، چندر گپت موریہ اور اشوکا کے دور میں بھی ہندوستان اپنی ترقی اور تہذیب کے میدان میں عروج پر تھا اور ایک لاجواب اتحاد اور یک جہتی تھی اور زندگی چین، امن اور آشتی کی تھی۔ مسلمانوں کے آنے کی وجہ سے مذہب کے ٹکراؤ نے پورے ملک کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
اسلم شیخ نے کہا کہ یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ مسلمانوں کے تو اس بناء پر خلاف ہیں کہ وہ باہر سے آئے ہیں لیکن انگریز بھی تو باہر سے آئے تھے، آپ نے اور آر ایس ایس نے ان غیر ملکی انگریز حکمرانوں کے خلاف کسی تحریک میں حصہ نہیں لیا؟ قومی آزادی کی تحریک سے آپ بالکل الگ رہے، وہ کیوں؟ کہنے لگے کہ اس زمانہ میں ہماری تمام کوشش ہندو دھرم کے تحفظ کی تھی ہم نہیں چاہتے تھے کہ انگریز حکمران ہم پر پابندی لگا دیں اور ہمارے دھرم پر کوئی آنچ آئے۔ ہماری آزادی کی جدو جہد اپنے ہندو دھرم اور اپنی ثقافت کے دفاع کے لیے تھی۔ ہماری پالیسی یہ تھی کہ ہم دوسری جنگ اور آزادی کے بعد مسلمانوں اور اپنے مخالفوں سے لڑنے کے لیے اپنی طاقت کو مضبوط بنائیں اور اسے محفوظ رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین تھا کہ جنگ کے بعد ہندوستان میں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوگی، اور آپ نے دیکھ لیا کہ آزادی کے بعد پورے ملک میں ہندو مسلم فسادات کی کیسی آگ لگی تھی۔
میں نے گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کے ملوث ہونے کے بارے میں سوال، ذہن میں رکھتے ہوئے گرو گول والکر سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ گاندھی جی کے قتل سے چند ہفتے قبل دسمبر 1947میں آپ نے دلی کے قریب گووردھن کے قصبہ میں آر ایس ایس کے کارکنوں کے اجتماع میں اس معاملہ پر گفتگو کی تھی کہ کانگریس کی ممتاز شخصیتوں کو کس طرح قتل کیا جائے تاکہ عوام میں دہشت پھیلائی جائے اور ان کے ذہنوں پر تسلط جمایا جاسکے۔ گرو گول والکر نے اس سے صاف انکار کیا لیکن اس کا اعتراف کیا کہ ان ہی دنوں روہتک میں ایک اجتماع میں انہوں نے کہا تھا کہ آر ایس ایس اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گی جب تک پاکستان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اور جو اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا ہم اسے بھی ختم کردیں گے، چاہے نہرو کی حکومت ہو یا کوئی اور حکومت۔ اسلم شیخ نے بڑے دھیمے سے کہا کہ اس میں اب تک تو آپ کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔