جمہوریت کی معراج

334

baba-alifسابق وزیر اعظم نواز شریف آج کل سڑکوں پر ہیں۔ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں گھر بھیجنے کا فیصلہ کردیا گیا، سو وہ گھر جارہے ہیں۔ غرور اور نا اہلی کو اگر سانحہ باور کیا جائے تو ان کی اقتدار سے علیحدگی ایک سانحہ ہے۔ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں آج تک کوئی سویلین حکمران اپنا عرص�ۂ اقتدار پورا نہ کرسکا۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے بعد جو وزرائے اعظم قبل از وقت گھر بھیج دیے گئے ان کی جبری رخصت میں نواز شریف کی کار گزاریاں بھی شامل ہیں۔ محمد خان جونیجو کو برطرف کیا گیا تو انہوں نے اپنے وزیراعظم کا ساتھ دینے کے بجائے جنرل ضیا کا ساتھ دیا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت گرانے کے لیے دونوں مرتبہ کی گئی سازشوں کا مرکزی کردار نواز شریف تھے۔ ہر مرتبہ انہوں نے محترمہ کی معزولی کا خیر مقدم کیا۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی کی سزا کو بھی انہوں نے آئین اور قانون کی بالا دستی سے تعبیر کیا تھا۔ نواز شریف کی ایک خوبی اور ہے جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کے اندر کا ڈکٹیٹر بیدار ہوجاتا ہے۔ وہ سب کو ماتحت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور اس جدوجہد میں چوتھی سمت جانکلتے ہیں۔ چوتھی سمت سے کیا مراد ہے۔ قدیم داستانوں کے کرداروں کو تین سمت جانے کی اجازت تو ہوتی تھی لیکن چوتھی سمت جانے سے منع کیا جاتا تھا۔
مسافرت کے تحیر سے کٹ کے کب آئے
جو چوتھی سمت کو نکلے پلٹ کے کب آئے
پاکستان میں یہ چوتھی سمت اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج اور اس کے ادارے ہیں۔ جو مداخلت اور بالادستی کے خواہش مند سویلین حکمرانوں کو سڑک پر لے آتے ہیں۔ تاہم وزرائے اعظم کی اس پیہم آمد ورفت کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔ اہل پاکستان جمہوریت کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی مدت پوری کی۔ اب مسلم لیگ ن بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔ ہم نے اقتدار کی دیوی کے منہ سے خون چھڑوا دیا ہے۔ آمریت کے راستے بند کردیے ہیں۔ ایک وزیراعظم رخصت ہورہا ہے تو ایک نظام کے تحت دوسرا وزیر اعظم اقتدار سنبھال رہا ہے۔ بحیثیت قوم ہم بالغ نظر ہوگئے ہیں۔ اگر یہ سسٹم اسی طرح چلتا رہا تو ہمیں بھی بھارت اور دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح بہترین قیادت میسر آجائے گی۔ غربت کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔
نواز شریف کے ہٹنے کے بعد اقتدار کی جنگ میں تیزی آگئی ہے۔ رسول کریم ؐ کا فرمان ہے۔ ہم اختیار یا اقتداراس کو نہیں دیتے جو اس کی خواہش رکھتا ہو۔ جب کہ جمہوریت کا آغاز ہی اقتدار کی طلب سے ہوتا ہے۔ آپ ؐ نے اقتدار کی ہوس رکھنے والوں کو بھیڑیے سے تشبیہ دی ہے۔ لیکن یہ اقوال اور ان کے مطابق طرز عمل ہماری منزل نہیں ہے۔ ہمیں تو امریکا اور مغرب جیسی جمہوریت چا ہیے۔ جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کے بعد ہماری اگلی منزل امریکا اور مغرب جیسی ایسی صاف ستھری قیادت کا حصول ہے جو شوگر ملوں، کارخانوں کی مالک نہ ہو جو کاروباری بد دیانتی میں لتھڑی ہوئی نہ ہو۔ جو اپنی جائداد اور اثاثوں کی ایک ایک پائی کی تفصیل قوم کے سامنے رکھ سکے۔ جس کے دولت کے خزانوں کی چھان بین کے لیے کوئی جی آئی ٹی نہ بنانا پڑے۔ مغرب میں حکومتیں تشکیل دینے والے مال ودولت جمع نہیں کرتے۔ وہ جمہوریت کا ’’پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ‘‘ ہیں۔ وہاں دولت جمع کرنے والے دوسرے ہوتے ہیں اور وہی اصل حکمران ہوتے ہیں۔ سرمایہ داروں کا یہ گروپ سیاست دانوں کا جائزہ لیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں باصلاحیت لوگوں کو شارٹ لسٹ کرتا ہے۔ مستقبل میں کس کو حکومت میں لانا ہے۔ متبادل کے طور پر کس کو تیار کرنا ہے۔ کون سے سیاست دان ہیں جو مستقبل میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں کس قدر مستقل مزاجی پائی جاتی ہے۔ ان کے اہداف کیا ہیں۔ امریکا کے صدر بل کلنٹن اور صدر اوباما جب کہ برطانوی وزیر اعظم جان میجر، ٹونی بلئیر اور ڈیوڈ کیمرون کا فیصلہ بھی ان ہی سرمایہ داروں کے اجلاس میں ہوا جنہیں بائلڈر برگ کہا جاتا ہے۔ بل کلنٹن جب ارکنساس کے گورنر تھے اس وقت انہیں بائلڈر برگ کے اجلاس میں بلا کر اگلے امریکی صدر کا سگنل دے دیا گیا تھا۔ ٹونی بلئیر کو وزیر اعظم بننے سے دو برس پہلے جب وہ اپوزیشن کے رکن پارلیمنٹ تھے، اگلے برطانوی وزیر اعظم کی اشیر باد دے دی گئی تھی۔
یہ سرمایہ دار گروپس طاقتور لابیاں تشکیل دیتے ہیں، پسندیدہ امیدواروں کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں، ان کی پشت پناہی کرتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔ ہر امیدوار کو الیکشن سے قبل فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے ان سرمایہ داروں اور لابیوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اقتدار میں پہنچنے کے بعد ان سیاست دانوں کا اولین مقصد عوام کی فلاح اور بہبود سے زیادہ ان سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ عراق کی جنگ اس کی واضح دلیل ہے۔ جب امریکا کے صدر بش اور برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے دنیا اور اپنے عوام سے جھوٹ بولا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (Weapons of mass destruction) ہیں۔ اس جھوٹ کی آڑ لے کر عراق پر جنگ مسلط کردی گئی اور ایک خوشحال ملک کو برباد کردیا گیا۔ اس کا مقصد امریکا کی تیل کمپنیوں کو بڑے بڑے ٹھیکے فراہم کرنا اور ان کی دولت میں اضافہ کرنا تھا۔ یہ تیل کے حصول کے لیے برپا کردہ جنگ تھی۔
امریکا اور مغربی ممالک میں بر سر اقتدار طبقہ عام سے لوگ محسوس ہوتے ہیں۔ امریکا کے سابق صدر بارک اوباما قطار میں لگ کر برگر خریدتے نظر آتے ہیں۔ دو مرتبہ اقتدار کی مدت پوری کرنے کے بعد وہ مالی طور پر اس قابل ہوسکے کہ واشنگٹن میں اپنا گھر خرید سکیں۔ یہ جمہوریت کا ’’ڈمی کلب‘‘ ہے۔ یہ وہ بھیڑیے ہیں جن کے دانت نکال دیے گئے ہیں۔ دانت والے اور ملکی دولت کو لوٹنے اور عوام کو نوچنے اور بھنبھوڑنے والے بھیڑیے الگ ہوتے ہیں۔ یہی اصل حکمران اور بادشاہ گر ہیں۔ کسی میں اتنی جرات نہیں کہ ان سے حساب لینا تو درکنار ان کی طرف اشارہ بھی کرسکے۔ 2013میں امریکا کا کل جی ڈی پی 15ٹریلین ڈالر (پندرہ ہزار ارب ڈالر) اور امریکا کا کل قرضہ16ٹریلین ڈالر (سولہ ہزار ارب ڈالر) تھا۔ کل ملاکر31ٹریلین ڈالرتھا۔ جب کہ امریکا میں جمہوریت کے سرپرست سرمایہ داروں نے 32ٹریلین ڈالر (بتیس ہزار ارب ڈالر) جزائر کیمین میں ٹیکس چوری کرکے رکھا ہوا ہے۔ کس میں اتنی جرات ہے کہ اس طرف دیکھ سکے اور اس دولت کی واپسی کی بات کرسکے۔
ہمارے یہاں چوں کہ جمہوریت ابھی خام اور ناپختہ ہے اس لیے برسراقتدار بھیڑیے اور لوگوں کا خون چوسنے والے سرمایہ دار بھیڑیے ایک ہی وجود میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ برسر اقتدار بھیڑیے الگ ہوں اور مال جمع کرنے اور دولت کمانے والے بھیڑیے الگ ہوں۔ یہی جمہوریت کی معراج ہے۔ ہم ابھی اس منزل سے دور ہیں۔ جمہوریت کا یہ حسن ابھی ہم پر آشکار نہیں ہوا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اگر جمہوریت اسی طرح چلتی رہی، اپنی جڑیں مضبوط کرتی رہی اور جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا تو ہم بھی جمہوریت کی اس منزل تک پہنچ جائیں گے۔