طاقت کا مظاہرہ، عوام پریشان

221

Edarti LOHمیاں نواز شریف عدالت عظمیٰ کی طرف سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد اب ملک فتح کرنے نکلے ہیں ۔ اور اس مہم میں اسلام آباد سے لاہور تک کے شہریوں کی جان عذاب میں ڈال دی ہے۔ تمام راستے سیل کردیے گئے اور جہاں ابھی نہیں پہنچے وہاں بھی دکانیں بند کرا دی گئیں۔ یہ عوام سے کیسی محبت ہے کہ لاکھوں افراد پریشان ہیں ۔ شاہی قافلے کی وجہ سے راستے جام ہوگئے ہیں اور ایمبولینسیں تک پھنسی ہوئی ہیں ۔ راستے کے تمام اسکول بھی بند کردیے گئے۔ ایک افراتفری کا عالم ہے کہ ایک معزول حکمران کا قافلہ گزر رہا ہے۔ چند منٹ کا سفر گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ بدھ کو اسلام آباد سے نکلنے والا قافلہ کہیں جمعہ تک لاہور پہنچے گا۔ میاں نواز شریف کنٹینر میں سوار ہیں جس میں ہر طرح کی سہولتیں موجود ہیں ۔ جب عمران خان اور ان کے سیاسی کزن طاہر القادری کنٹینر پر چڑھے تھے تو میاں نواز شریف ان پر طنز کیا کرتے تھے اب خود کنٹینر میں سوار ہیں ۔ راستے میں کبھی کنٹینر سے اتر کر بلٹ پروف گاڑی میں سوار ہو جاتے ہیں اور کبھی پھر کنٹینر میں چڑھ جاتے ہیں ۔ راستے میں جہاں مجمع پاتے ہیں خطاب بھی کرتے ہیں اور یہی سوال دوہراتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ وہ یہ بات بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ڈکٹیٹر تو کئی کئی برس حکومت کرجاتے ہیں ، سول حکمرانوں کا اوسط دور اقتدار بمشکل ڈیڑھ سال ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ آمر جنرل پرویز مشرف کو عدالت کے حکم پر باہر بھیجا گیا۔ انہیں چاہیے کہ وہ ایک بار پھر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ نکال کر دیکھ لیں جس میں عدالت نے پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ حکومت پر چھوڑ دیا تھا ۔ ایک صحافی نے جب نواز شریف کو فیصلے کے اس نکتے پر متوجہ کیا تو انہوں نے اس سے لاعلمی کا مظاہرہ کیا جس سے ظاہر ہے کہ وہ عدالتی فیصلے پڑھتے بھی نہیں تھے ۔ اور کسی مشیر نے انہیں جو بتا دیا اس پر یقین کر بیٹھے۔ وہ کہتے تو یہ ہیں کہ عدالت کا فیصلہ تسلیم ہے لیکن اپنے ہر خطاب میں اس فیصلے پر تنقید کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ بار بار پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا گیا۔ 5ججوں نے عوام کے فیصلے کی توہین کی ہے۔ وہ عوام کو اکساتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ کو یہ توہین قبول ہے ؟ اس بار نواز شریف کا بس نہیں چلا ورنہ ممکن ہے کہ وہ ایک بار پھر عدالت عظمیٰ پر حملہ کروا دیتے۔ وہ کھلم کھلا عوام کو عدالت کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ اور اس کے لیے ایک طویل ریلی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ریلی میں کتنے لوگ ہیں ، کتنی گاڑیاں ہیں یہ شروع ہی سے متنازع ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کچھ کہتے ہیں اور نواز شریف کے درباریوں کا دعویٰ کچھ اور ہے۔ اس مسئلے پر نواز شریف کے سابق ترجمان مصدق ملک اور ایک ٹی وی چینل کے اینکر میں گزشتہ بدھ کو گرما گرمی بھی ہوئی۔ جمعرات کے اخبارات میں بھی ایک طرف لیگی رہنماؤں کا دعویٰ لاکھوں افراد کا تھا جو اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے۔ اور سرکاری رپورٹ یہ تھی کہ 7ہزار لوگ اور 850گاڑیاں قافلے میں شامل ہیں ۔ افراد لاکھوں میں تھے یا ہزاروں میں ، یہ بحث ہمیشہ اٹھتی ہے خواہ جلسہ ہو یا ریلی۔ ہر ایک دوسروں کی تعداد کو کم بتاتا ہے۔ لیکن ٹی وی چینلز کی وجہ سے حقیقت بڑی حد تک سامنے آجاتی ہے، بڑی حد تک اس لیے کہ برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ بٹے ہوئے ہیں۔شیخ رشید کا یہ دعویٰ بہرحال درست نہیں ہے کہ ن لیگ کی ریلی فلاپ ہوگئی اور نواز شریف حواس باختہ ہوگئے۔ شیخ رشید چونکہ تحریک انصاف کے ہمنواؤں میں سے ہیں اس لیے انہیں یہی کہنا چاہیے، مزید فرمایا کہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر نالہ لئی میں گر گیا۔ تحریک انصاف کے جلسوں اور دھرنوں کے بارے میں اس کے مخالفین بھی ایسی ہی باتیں کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کی جاتی رہیں گی۔ خود تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے لیے اسلام آباد کو بند کردیا گیا، پہلی دفعہ کوئی حکومت حزب اختلاف کے خلاف ریلی نکال رہی ہے۔ تحریک انصاف والے اس گمان میں ہیں کہ ن لیگ کی ریلی ان کے خلاف ہے جب کہ یہ ریلی تو عدالتی فیصلے کے خلاف ہے۔ اس فیصلے کا کریڈٹ عمران خان لے رہے ہیں جب کہ اس مقدمے میں کئی مدعا علیہان تھے اور پہل جماعت اسلامی نے کی تھی۔ دراصل یہ کریڈٹ خود میاں نواز شریف عمران خان کو دے رہے ہیں اور اپنے ہر خطاب میں ان کو کوستے ہیں۔ یہ اعتراض بجا ہے کہ عدالت کے حکم پر نا اہل قرار دیے جانے والے شخص کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ یقیناًزیادتی ہے۔ یہ سرکاری وسائل عوام کے وسائل ہیں۔ ہر حکمران عوام کے وسائل کو اپنی ذات پر استعمال کرتا ہے اور یہ بھی کرپشن ہے۔ نواز شریف نے راولپنڈی میں خطاب کرتے ہوئے عوام سے کہا ہے کہ ’’ وعدہ کرو اپنے مینڈیٹ کا احترام کراؤ گے ،یہ نہ ہو کہ عوام ووٹ دیں کوئی چلتا کر دے ‘‘۔ میاں صاحب نے پوچھا ہے کہ کب تک پاکستان کے ساتھ مذاق ہوتا رہے گا۔ یہ مذاق اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آنے والے عوام سے مذاق کرتے رہیں گے اور اس زعم میں مبتلا رہیں گے کہ انہیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔