تصادم اور ایوان بالا کی تجویز

234

Edarti LOHپاکستان کے ایوان بالا، سینیٹ نے اداروں کو تصادم سے بچانے اور پارلیمان کی مضبوطی کے لیے انتظامیہ، عدلیہ اور فوج کو ڈائیلاگ کی دعوت دی گئی ہے۔ ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا کہناتھا کہ پارلیمان کو مضبوط کرنا سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ لہٰذا اس کے لیے بین الاداراجاتی مکالمہ ہونا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاستی اداروں میں محاذ آرائی نہ ہو۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ سینیٹ کی طرف سے پیش کردہ تجویز نہ صرف بہت احسن ہے بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس وقت تمام ریاستی اداروں میں محاذ آرائی کی کیفیت نمایاں ہے۔ میاں نواز شریف عدالت عظمیٰ کے حکم پر نا اہل ہونے کے بعد کھلم کھلا محاذ آرائی پر اتر آئے ہیں اور اپنے خلاف فیصلہ کرنے پر عدالت کے معزز ججوں کی توہین کرنے پر اتر آئے ہیں۔ بین السطور وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد فوج ہے۔ میاں نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ قوم کا مقدمہ لے کر نکلے ہیں۔ کام شروع کیا تو مولوی اور دھرنے والے آگئے۔ دھرنے والوں سے مراد تحریک انصاف ہے لیکن پاکستان کے ایک نامور مولوی حضرت مولانا فضل الرحمن تو جی جان سے نواز شریف کے ساتھ ہیں اور عدالت عظمیٰ پر تنقید کرنے میں ن لیگ سے پیچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے جملے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عدالت عظمیٰ سے انصاف نہیں تحریک انصاف برآمد ہوئی ہے۔ تو کیا نواز شریف نے مولوی کا طنز امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق پر کیا ہے؟ سراج الحق معروف معنی میں تومولوی ہیں لیکن جو بھی اﷲ، رسولؐ کی باتیں کرے اسے سیکولر مزاج کے لوگ مولوی کہہ کر طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ تو شائستگی اور تہذیب کی تمام حدیں پھلانگ گئے میاں نواز شریف مولوی پر اس لیے برہم ہیں کہ سراج الحق بھی پاناما مقدمے میں ایک فریق تھے اور اب بھی وہ مصر ہیں کہ احتساب کی گاڑی صرف میاں نواز شریف کے دروازے پر نہیں رکنی چاہیے۔ صورتحال یہ ہے کہ میاں نواز شریف ججوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کوستے ہوئے جس راہ پر چل پڑے ہیں وہ واضح طور پر تصادم کی راہ ہے اور کسی بھی وقت کوئی بڑا سانحہ ہوسکتا ہے جس کا فائدہ نواز شریف اور ن لیگ کو کیا شاید کسی کو بھی نہ ہو۔ نواز شریف اس وقت خود کو بہت بڑا فاتح سمجھ رہے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ایسے ہی اقدام کا کیا نتیجہ نکلا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا ایجنڈا آئین کی بالادستی ہے۔ تو کیا آئین میں عدالتوں کے احترام کی کوئی شق نہیں؟ کہتے تو یہ تھے کہ عدالت کا ہر فیصلہ قبول ہوگا اب تلملائے پھر رہے ہیں اور فیصلے میں سازش تلاش کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ قوم کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ ذرا یہ بھی فرمادیں کہ ساڑھے چار برس کے دور اقتدار میں انہوں نے کتنے ایسے کام کیے جن کا فائدہ قوم کو پہنچا ہو۔ تمام دعوؤں کے باوجود اندھیرے دور نہیں کرسکے۔ سی پیک کا بہت شور مچ رہا ہے لیکن ابھی تک تو اس کا کوئی فائدہ عوام تک نہیں پہنچا اور جب پہنچے گا تب دیکھی جائے گی۔ عملاً تو یہ ہوا ہے کہ ساڑھے چار سالہ دور اقتدار میں عوام زیادہ سے زیادہ مقروض ہوئے ہیں لیکن آپ اور آپ کے خاندان کی دولت بڑی تیزی سے بڑھتی رہی ہے۔ اس عرصے میں ریکارڈ غیر ملکی قرضے لیے گئے ہیں انہیں کون اتارے گا؟ ان قرضوں کا فائدہ عوام تک کیسے اور کتنا پہنچا۔ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں 20 کروڑ عوام کو نا اہل کیا گیا، عوام نے مجھے اسلام آباد بھیجا، انہوں نے گھر بھیج دیا۔ آپ کے لیے بہتر تھا کہ کچھ دن گھر بیٹھ کر آرام کرلیتے پھر باہر نکلتے۔ عوامی طاقت کا یہ مظاہرہ محض چند دن چلے گا اس سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تو بدلنے سے رہا ممکن ہے نئے مقدمات قائم ہوجائیں ۔ خوشامدی ٹولے کے نرغے سے نکل کر اپنے مخلص اور سب سے پرانے ساتھی چودھری نثار کی بات اب تو سن لیں کہ ’’انتہا تک نہ جائیں، ایسا رویہ نہ اپنائیں کہ ادارے مخالف ہوجائیں، برداشت اور تحمل سے چلنا چاہیے۔‘‘ چودھری نثار نے فیصلہ کرنے سے پہلے بھی یہ مشورہ دیا تھا کہ میاں صاحب اگر فیصلہ آپ کے خلاف آئے تو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے مشیر انہیں کچھ اور مشورہ دے رہے ہیں کہ یہی وقت ہے میاں صاحب، اداروں سے لڑجائیں۔ میاں صاحب، اس میں سارا نقصان آپ ہی کا ہے آپ سڑکوں پر ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ جمع کرلیں اس سے عدالت کا فیصلہ نہیں بدلے گا۔ ذرا چودھری نثار کی بھی سن لیں جو کہہ رہے ہیں کہ ادارے مخالف ہوجائیں گے۔ عدلیہ کو تو مخالف کر ہی لیا اب دیگر ادارے بھی مخالف ہوگئے تو ملک سے رہی سہی جمہوریت بھی جائے گی۔ کہیں میاں صاحب نے یہ تو نہیں ٹھان لی کہ میں نہیں تو کوئی نہیں۔ نواز شریف کے خلا تاثر ہے کہ وہ اداروں سے محاذ آرائی کے شوقین ہیں۔ ان حالات میں پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے سینیٹ کی پیش کردہ تجویز پر جلد ہی عمل ہونا چاہیے۔ لیکن کیا مجوزہ ڈائیلاگ میں فوج کی موثر شرکت ہوسکے گی۔ اس کی شرکت ضروری بھی ہے۔