چنگ چی اورسی این جی رکشوں کو قانون کے دائرے میں لا کر ریگولرائز کیا جائے،حافظ نعیم الرحمن

220

  امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولت فراہم کر نا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔چنگ چی اورسی این جی رکشوں کو قانون کے دائرے میں لا کر ریگو لرائز کیا جائے ۔حکومت قانونی رکاوٹوں کو دور کر نے کے لیے عدا لت سے رجوع کرے ۔جماعت اسلامی عوام کا مقدمہ لڑ رہی ہے اور متبادل انتظام کے بغیر ہزاروں افراد کو بے روز گار کر نے کے حق میں نہیں ۔جماعت اسلامی بھی قانونی پہلوﺅں کا جائزہ لے کر مشاورت کر رہی ہے ہم اس سلسلے میں عدا لت سے بھی رجوع کریں گے اور اسی حوالے سے 15اگست کو ادارہ نورحق میں ایک جر گہ منعقد کیا جائے گا ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورِ حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا ۔اس مو قع پر جماعت اسلامی کرا چی کے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی ،سیکریٹری کراچی عبدالوہاب ،سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری ،آل پاکستان آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز کراچی کے صدر محمود حامد ہیو من رائٹس نیٹ ورک کے صدر انتخاب عالم سوری اور دیگر بھی مو جود تھے ۔انہوں نے کہا کہ شہر میںپبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور عوام کو درپیش مشکلات و مسائل کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے متبادل انتظام فراہم کیے بغیر عوام سے سفری سہولتیں چھیننے سے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہو گیا ۔انہوں نے سوال کیا کہ کراچی میں چلنے والی تمام بسوں ، منی بسوں اور ویگنوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ ان کے پاس مو جود ہیں ؟ کیا ان کے فٹنس سر ٹیفکیٹ چیک کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا پائیدار حل بڑی بسیں ہیں ۔نعمت اللہ خان کے دور میں گرین بسیں چلائی گئیں تھی اور عوام کو اچھی اور بہترین سفری سہولت میسر آئی لیکن افسوس کہ بعد میں ان کو ختم کر دیا گیا ۔اسی طرح نعمت اللہ خان کے دور میں ماس ٹرانزٹ پروگرام بنا یا گیا تھا جو چار سال میں مکمل ہو نا تھا ۔ایم کیو ایم نے اس کو روکنے میں بھی کردار اد ا کیا اور عوام کو اس سہولت سے محروم کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی ضروریا ت کے پیش نظر تین ماہ کے اندر کم از کم ایک ہزار کے قریب بڑی بسیں لائی جائیں ۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ 2کروڑ عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کا واحد بڑ اذریعہ چنگ چی اور سی این جی رکشہ رہ گئے ہیں مگر ان کی قانونی حیثیت اور بے ترتیب ڈرائیونگ کی شکایات بھی بڑ ھتی گئیں ۔ان کی اصلاح کے لیے انتظامیہ نے کوئی قانونی کاروائی نہیں کی ۔روٹ پرمٹ بنا نا ،لائسنس بنا نا ،سڑ کوں پر ضابطوں کا پابند بنا نا ،سب انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اب جب کہ کراچی کی عوام کی اکثریت کا دارو مدار ان ہی چنگ جی اور سی این جی رکشوں پر ہے ۔ ہائی کورٹ کے ایک حکم کی غلط تشریح کر کے 20لاکھ افراد کو بیرو ز گار کر نا، ان کے رکشوں کو پکڑنا ،انہیں کاٹنا صریحاً ظلم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ کا یہ عمل ان کروڑوں لو گوں کے سا تھ بھی زیادتی ہے جو اس وقت چنگ چی اور سی این جی رکشوں کو سفر کا ذریعہ بنائے ہو ئے ہیں ۔ یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں ان چنگ چی رکشوں کو قانون کے دائرے میں لا کر رپورٹ پیش کر نے کا کہا ہے مگر عملاً پولیس نے ان سی این جی رکشوں کو بھی ضبط کر لیا ہے جو روٹ پرمٹ کے مطابق چل رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سڑکوں پر چلنے والی بسوں اور منی بسوں کی تعداد 10,000کے قریب ہے جبکہ یہ تعداد چارسال قبل 22,313تھی ۔ حافظ نعیم الرحمن کہا کہ ایک حکم کے مطابق اسکول وینز سے سی این جی کٹ کو ہٹایا جائے اور تمام اسکول وینز کا کلر مخصوص کیا جائے،یہ اعلان انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اسکول وینز سی این جی کے بجائے اگر پیٹرول سے چلائی جائیں گی تو اس سے بچوں کے ماہانہ آمد ورفت کے اخراجات میں اضافہ ہو گا ۔جس کا برا ہ راست اثر طلباءاور عوام پر پڑے گا ہم مطالبہ کر تے ہیں کہ یہ حکم واپس لیاجائے۔