کل اور آج

185

zc_Muzaferابھی کل کی بات لگتی ہے ۔ لاہور سے قافلے اگست کے مہینے میں اسلام آبادروانہ ہو رہے تھے ۔ ہر طرف صدا تھی چلو چلو اسلام آباد چلو ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کہہ رہے تھے کہ جینا ہوگا مرنا ہوگا دھرنا ہوگا ، دھرنا ہوگا۔ اور حکومت پر میاں نواز شریف براجمان تھے۔ میاں صاحبان کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی طریقہ ہے کہ حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی جلسے جلوس اور دھرنے شروع کردیے گئے اس وقت حکومت کا موقف یہ تھا کہ آزادی کے مہینے میں جلسے جلوس دھرنے کر کے ملک کے بارے میں کیا تاثر قائم کیا جارہا ہے۔ کنٹینر کی سیاست منفی سیاست ہے۔معاملات پارلیمنٹ میں لائے جائیں ۔ لیکن کل اور آج میں جو فرق ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کل تک کنٹینر کی مخالفت کرنے والے آج کنٹینر پر سوار ہوگئے ہیں ۔ کل لاہور سے اسلام آباد کی طرف جلو س جارہے تھے، آج اسلام آباد سے لاہور کی طرف جلوس آرہے ہیں۔ اس وقت جمہوریت بچانے کی کوشش کی جارہی تھی آج بھی جمہوریت بچانے کے لیے جلوس نکالا گیا ہے۔ بہرحال میاں نواز شریف حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تقریباً ایک سال کے اندر اندر دھرنے شروع ہوگئے۔ ایک سال دھرنوں میں گزر گیا ۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں خبر چلتی رہی کہ آج یہاں دھرنا کل وہاں جلسہ۔ کنٹینر سج گیا باقاعدہ رنگا رنگ پروگرام چل رہا ہوتا تھا۔ قسمت کی ستم ظریفی ، کل تک حکمرانی کرنے والے میاں نواز شریف گویا واپسی کے سفر پر ہیں وہ ایک بڑے جلوس کے ساتھ اسلام آباد سے نکل پڑے ہیں ۔ ایک طرف انہیں انتباہ دیا جارہا ہے کہ گاڑی سے باہر نہ آنا ، عوام میں مت جانا۔ دوسری طرف خبریں آرہی ہیں کہ میاں صاحب نے انکار کردیا ہے وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ چار سال قبل بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا تھا ۔ اور آج بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس وقت میاں صاحب حکومت میں تھے لیکن جلسوں اور دھرنوں کی وجہ سے اسلام آباد سیل ہوگیا تھا۔ ایک آدھ دن تو جڑواں شہر بھی بند رہے ۔ پارلیمنٹ کے قریب دھرنا، عدالت عظمیٰ کے سامنے دھرنا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا کھربوں روپے کا نقصان ہوا ۔ آج میاں نواز شریف طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ آج سیکورٹی کے لیے کئی راستے سیل ہیں ۔ کاروباری مراکز بند کیے گئے ہیں ۔ اور پھر کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ میاں صاحب 14اگست کو لاہور پہنچنا چاہتے ہیں گویا اگلے چار روز مزید میڈیا کے ذریعے قوم یرغمال رہے گی۔ اس سارے عمل میں پاکستانی عوام کو کیا مل رہا ہے۔ سیاسی کارکنوں کا تو کام ہی پارٹی کی خاطر جان قربان کرنا ہے۔ چنانچہ مسلم لیگ ن کے کارکن سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ۔ کل پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکن نکلے تھے نہ وہ عوام تھے نہ یہ عوام ہیں ۔ گزشتہ چار برس کے دوران ان بدترین مخالفین نے اپنے باہمی مفاد والی تمام ترمیم، قانون سازی اور تنخواہوں اور مراعات میں اضافوں کے قوانین کی منظوری میں ایک دوسرے سے جمہوریت کے بہترین مفاد میں تعاون کیا تھا اور ایک مرتبہ پھر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ لوگ 5سال تک ایک ہی اسمبلی جاری رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
بظاہر اسمبلی کا پانچ سال تک قائم رہنا کامیابی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ چار سال میں ملک میں بجلی کا بحران ختم نہیں کیا جاسکا، روزگار میں اضافہ نہیں ہوا، پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل اور ریلوے جیسے اداروں کو استحکام نہیں ملا بلکہ تباہی کے کنارے پہنچا دیا گیا ۔ اب جان چھڑانے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ تبصرہ زیادہ بہتر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعتیں عوام کے مسائل حل کیے بغیر پارلیمنٹ کی مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہیں۔ قوم نے ارکان اسمبلی کے انتخاب کے وقت انہیں اسی لیے اسمبلیوں میں بھیجا تھا کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے جن کو حکومت ملی تھی ان کے ذمے مسائل کا حل اور جن کو نہیں ملی ان کو نگرانی، احتساب اور قانون سازی کی ذمے داری ملی ۔ لیکن سب نے مل کر صرف قوم کا وقت ضائع کیا۔ بہرحال اب واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ روزانہ نامعلوم قوتوں پر الزام دھرتے دھرتے اچانک ایک دن بول پڑے کہ پانچ ججوں نے 20کروڑ عوام کو نااہل کیا ہے۔ لیکن میاں صاحب یہ نہیں بتاتے کہ لوگ تو واقعی ووٹ دے کراسمبلیوں میں بھیجتے ہیں لیکن جو کچھ ہمارے حکمران کرتے ہیں کیا اس کے لیے عوام بھیجتے ہیں ۔ قومی خزانے کی لوٹ مار ، اپنے خاندان کو نوازنے کا سلسلہ، قومی اداروں کو تباہ کرنا ہو یا ان کو نجکاری کے نام پر عزیزوں رشتے داروں کے حوالے کرنا ، ان میں سے بھی تو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ میاں صاحب کا یہ کہنا بجا ہے کہ الزام پاناما کا لیکن نا اہلی اقامے پر یہ ایک بڑا سوال ہے۔ میاں صاحب کے جلوسوں اور استقبال کو دیکھ کرلگ رہا ہے کہ انہیں تو پورے ملک میں آنے والے انتخابات کی تیاریوں کے لیے میدان اور موقع فراہم کردیا گیا ۔