عین اس وقت یہ بحث چھیڑی گئی ہے کہ ووٹ کی حرمت کے لیے آئین بدلنا ہوگا جب قوم اپنا 71 واں یوم آزادی منارہی ہے۔ اگرچہ یہ وقت قوم کو آزادی کی نعمت کے حصول، اس کی قربانیوں سے آگاہ کرنے کا اور آزادی کے حصول کے مقاصد قوم کے ذہنوں میں تازہ کرنے کا تھا لیکن اگر یہ بحث چھیڑ ہی دی گئی ہے تو اچھا ہے اسی پر بات کرلی جائے۔ پاکستان کے معزول وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ ووٹ کی حرمت کے لیے آئین بدلنا ہوگا۔ اس بات پر یہ سوال تو ضرور کیا جاسکتا ہے کہ معزولی کے بعد ووٹ کی حرمت کیوں یاد آئی لیکن ہم تو یہ سوال کریں گے کہ 14 اگست 1947ء کو آزاد ہونے والا ملک جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اس کی حرمت بحال کرنے کے لیے حکمرانوں اور قوم کا قبلہ کب بدلے گا۔ یہ سڑکیں،یہ پل، موٹروے، عمارتیں، کارخانے، میدان، تفریح گاہیں یہ سب دنیا کے ہر ملک میں بنتے ہیں یہ چیزیں بنانے کے لیے ملک حاصل نہیں کیے جاتے۔ ملکوں کا قیام کسی مقصد، کسی نظریے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اگر عیسائیوں نے مشرقی تیمور میں یا سوڈان میں کوئی ریاست بنائی ہے تو ان کا مقصد اپنے عقائد پر اپنی مرضی کے ساتھ عمل کرنا تھا۔ اگر سوویت یونین سے 9 یراستیں الگ ہوئی ہیں تو ان کے مقاصد سوویت یونین کے مقاصد سے مختلف تھے۔ اسی لیے وہ الگ ہوئیں ان میں سے 6 ریاستیں مسلمان ہیں یہاں تک کہ اسرائیل کا قیام بھی سڑکیں اور عمارتیں بنانے کے لیے نہیں تھا۔ پاکستان کا قیام بھی کسی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔پوری تحریک آزادی میں مسلمانوں کو سڑکوں، عمارتوں، کارخانوں، موٹروے یا ترقی کے خواب نہیں دکھائے گئے تھے بلکہ جتنی تحریک آزادی تاریخ میں ہے اس سے کہیں زیادہ تو اس تحریک کے سپاہیوں نے گزشتہ برسوں میں اپنی زبانی دہرائی ہے جو خود اس تحریک کا حصہ تھے جن کے دلوں میں اس نظریے نے جگہ بنائیء اور وہ دوسروں کو اس نظریے پر جان نچھاور کرنے پر آمادہ کرتے رہے لیکن افسوس ہے ان لوگوں پر جنہوں نے جانتے بوجھتے اس نظریے کو چھپانے کی کوشش کی اور قوم سے جھوٹ بولا۔ قائد اعظم پر سنگین الزامات لگائے کہ آج معزول وزیراعظم کہتے ہیں کہ ملک چند لوگوں کی جاگیر نہیں۔ 20 کروڑ عوام کا ہے سسٹم میں وائرس ہے۔ اس ملک کے نام نہاد دانشوروں نے قائد اعظم پر بیک وقت کئی حملے کیے۔ انہیں سیکولر قرار دیا ان کی سیاسی سوچ کو محدود قرار دیا، انہیں عملاً دھوکے باز کہا گیا، ان لوگوں کے خیال میں قائد اعظم ایک سیکولر ملک ہندوستان کی موجودگی میں ایک اور سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں وہ قوم کو اسلام کے نام پر دھوکا دے رہے تھے۔ آج بات ہورہی ہے ووٹ کی حرمت کی۔ اور اس ووٹ کی حرمت کو خود ووٹ لینے والوں نے پامال کیا ہے۔ یہ بات سب کو یاد ہے کہ جب ووٹوں کا وقت آتا ہے تو مری اور چھانگا مانگا کے سیاحتی مقامات آباد ہوجاتے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کسی بھی شروع کی ہوآلہ کار تو ہمارے سیاسی رہنما ہی بنے تھے۔ ووٹ کی حرمت کو ووٹوں کی خرید و فروخت کرکے پامال کیا جاتا ہے۔ فوج مداخلت کرتی ہے تو اس کا سبب بھی ہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش ہے۔ اگر سیاسی حکمران فوج کا راستہ روکنا چاہتے ہیں تو خود آئین اور ووٹ کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں۔ جس طرح فوج کا سیاست میں کام نہیں اسی طرح سیاست میں دھوکے بازی اور آئین سے بالاتر رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب جب کہ ووٹ کی حرمت کے لیے آئین بدلنے کی بات ہورہی ہے تو پاکستانی قوم 14 اگست کو یہ سوال ضرور کرے گی کہ نظریہ پاکستان کی حرمت کب بحال ہوگی۔ سارے ہی حکمران بشمول فوجی و سویلین یہ کہتے ہیں کہ ہم ملک کو ترقی دے رہے تھے کہ رکاوٹیں آنے لگیں۔ لیکن پاکستان ترقی کے لیے نہیں سڑکوں اور عمارتوں کے لیے نہیں نظریے پر عمل کے لیے بنا تھا۔ سڑکیں، عمارتیں، کارخانے تو اس ملک کے لیے بنتے تھے ملک ان کے لیے نہیں بنا تھا۔ نظریہ پاکستان کی حرمت تو دفعات 62،63 ہر ایک شعبے پر بروئے کار لانے سے ہی قائم ہوگی۔ پاکستان کے نظریے کی حرمت بحال کریں ووٹ کا تقدس اور حرمت خود بخود بحال ہوجائیں گے۔ پاکستانی قوم بھی ایک لمحے کو غور کرے 14 اگست کو صرف یہ غور کرنے میں گزاریں کہ 70 برس کے دوران ہم نے کیا حاصل کیا۔ کہاں سے چلے تھے، کہاں پہنچ گئے۔ پاکستان کا نظریہ کیا تھا ہم نے کیا بنادیا، ہم اپنے حکمران چنتے وقت نظریہ پاکستان کو سامنے کیوں نہیں رکھتے۔ اس قدر مادیت پرستی کیوں ہے کہ جو سبز باغ دکھائے اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ سب کچھ تو کرکے دیکھ لیا جمہوری تماشا دیکھا، جرنیلی کرتب دیکھے، اسلامی نظام کے جرنیلی دعوے دیکھے۔ جمہوریت کے کمیونسٹ تڑکے دیکھے پاکستان نے سول مارشل لاء بھی دیکھ لیا اور مارشل لاء کی کوکھ سے بار بار جمہوریت کا جنم بھی دیکھا لیکن نظریہ غائب رہا۔ جس روز پاکستان کا مطلب لا الٰہ الا اﷲ حکمرانوں کا مقصد بن گیا اسی روز ووٹ اور آئین کی حرمت بحال ہوجائے گی اور یہ بات میاں نواز شریف، چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سمیت تمام سیاست دانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آئین مکمل ہے جب کوئی حکمران غلطی کرتا ہے حکومت سے باہر جاتا ہے تو اسے آئین میں سقم یاد آجاتے ہیں۔ آئین کو نافذ تو کریں جس دن آئین اپنی روح کے مطابق نافذ ہوجائے اس دن سویلین حکمران بھی آئین شکنی نہیں کرسکے گا اور فوجی جرنیل بھی آئین پامال نہیں کرسکے گا۔ اپنے اقتدار سے آئین کیوں مشروط کردیا جاتا ہے۔ جنرل ایوب نے مشہور کردیا تھا کہ ایوب کے بعد کون ہوگا۔ پھر بھٹو نے مشہور کرادیا کہ بھٹو ہی تو ہے اس کے بعد کون ہوگا۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیا نے کہاکہ میں ہی اس ملک کا حال اور مستقبل ہوں لیکن وہ بھی گئے۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف نے باریاں کھیلیں، آئین کو پامال کیا، اس وقت کسی کو ووٹ کی حرمت کا خیال نہیں آیا۔ جنرل پرویز نے بھی یہی کیا اب نواز شریف کو ووٹ کی حرمت یاد آرہی ہے۔ ان سمیت تمام سیاست دانوں اور جرنیلوں کے لیے یہ سبق ہے کہ اب بس کریں پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اس کو اس کی منزل سے ہمکنار کرنے کی جد وجہد کریں جو قوتیں پارلیمنٹ میں کمزور ہیں وہ بھی اس حوالے سے لائحہ عمل بنائیں کہ کسی کو آئین کا حلیہ بگاڑنے نہیں دیں گے۔ یہ جو سینیٹ کا پلیٹ فارم بحث مباحثے کے لیے کھولنے کی بات کی گئی ہے یہ صرف اپنے مقاصد کے لیے آئین کو تبدیل کرنے کا ہتھکنڈہ ہے۔ آئین کی دفعات 63،62 کو باہر کرنے کے بارے میں غیر موثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آخر ہمارے حکمران کسی قاعدے قانون کی پابندی پر راضی کیوں نہیں ہوتے۔ پھر کون مطلق العنان بننا چاہتا ہے۔