چودہ اگست اور نیا عمرانی معاہدہ

244

baba-alifجون ایلیا کی ایک فضول سی بات سے کالم آغاز کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’پاکستان علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھا۔‘‘ ہمارے وہ دانشور جو قیام پاکستان کو ان اسلامی، فکری اور اخلاقی عوامل سے علیحدہ کرکے دیکھتے ہیں جنہیں ہم نظریہ پاکستان کہتے ہیں وہ پاکستان کو ایسے ہی مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ الفاظ اور جملے کچھ بھی ہوں اشارہ پاکستان کے وجود کی بے معنویت کی طرف ہوتا ہے۔ ان کی بات درست ہے، اگر نظریہ پاکستان کی اصطلاح کو فراموش کردیا جائے تب پاکستان کی حیثیت ایک فضول سی شرارت کے سوا کچھ نہیں رہتی۔
اسلام کا سیاسی سفر عالی مرتبت ؐ کی ہجرت سے شروع ہوتا ہے۔ اس سفر میں آپؐ کی پہلی منزل ریاست مدینہ کا قیام تھا۔ مدینہ میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے۔ ان میں یہود اور نصاریٰ بھی تھے اور اوس اور خزرج بھی۔ آپ ؐ نے سب کو اس تاریخی معاہدے کے پرچم تلے کھڑا کردیا جسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس ریاست کی جس کا یہ معاہدہ پرچم تھا اساس اسلام تھی۔ مدینہ کی ریاست کے بعد دوسرا ملک جو اسلام کی اساس پر قائم ہوا اس کا نام پاکستان ہے اور یہ محض اتفاق نہیں کہ اس کے دارالحکو مت کا نام اسلام آباد ہے۔ ریاست مدینہ کو استحکام تب نصیب ہوا تھا جب غزوہ بدر میں عمر بن ہشام (ابو جہل) کے سینے میں نیزہ پیوست ہوا۔ یہ دراصل کفر کے سینے میں نیزہ تھا۔ آج پاکستان کا بحران نہ معاشی ہے اور نہ دفاعی، پا کستان کا اصل بحران یہ ہے کہ پا کستان کو ہم نے اسلام اور کفر کے معرکے سے الگ کردیا ہے۔ اس عہد کے عمر بن ہشام یا ابو جہلوں کے سینے میں نیزہ اتارنے کے بجائے ہم انہیں دوست سمجھتے ہیں اور ان کے اتحادی ہونے کو فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ ہم نہ پاکستان کو اس کی اساس سے منسلک کرنے پر تیار ہیں اور نہ عالم کفر سے اس کا تعلق طے کرنے پر۔
نظریہ پاکستان دراصل ’’روح اسلام‘‘ کو ریاست اور حکومت میں داخل کرنے کا نام ہے۔ علامہ اقبالؒ کی فکر کا مرکز و محور یہی سوچ تھی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جسے وجود دیا۔ اس مرتبہ ہم نے وطن عزیز کی 71ویں سالگرہ منارہے ہیں۔ گزشتہ 70برس میں پاکستان کا اسلام سے رشتہ مضبوط کرنا تو درکنار ہم یہ رشتہ قائم بھی نہیں کرسکے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سول اور فوجی حکمران یہ رشتہ جوڑنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم پر جو لوگ حکمران ہیں بظاہر ہم میں سے ہیں، ان کے نام بھی اس تہذیب کے عکاس ہیں جس کا ماخذ اسلام ہے لیکن نہ یہ ہم میں سے ہیں اور نہ ان کا جینا مرنا ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ کفر کی قوتوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ہمارے لیے ندامت کے سوا کچھ نہیں۔
پاکستان ریاست مدینہ کا تسلسل ہے۔ اگر پاکستان اس تا ابد قائم رہنے والی ریاست سے اپنا رشتہ نہیں جوڑتا تو اس کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا ہمیں ایسے پا کستان کی ضرورت نہیں خواہ اس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں۔ اس رشتے کے قائم کرنے میں رکاوٹ یہ سول اور فوجی قیادت ہے جس نے 70 برس گزرجانے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام اور سود کو اس ملک کی معیشت کا لازمی حصہ بنا رکھا ہے۔ وہ سود جسے اللہ جل جلالہ اور اس کے حبیب محمد کریمؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے، جسے ماں سے زنا کی مثل کہا گیا ہے۔ سود کی تمام تر ہلاکت آفرینی کے باوجود کہ قومی دولت محض چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ جاتی ہے سود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے عوام امریکا کو اپنا بھارت سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے انگریزوں سے آزادی کے بعد انہیں امریکا کا غلام بنادیا ہے۔ امریکی سامراج کو ان پر مسلط کردیا ہے۔ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا اس ملک میں قوانین کا ماخذ قرآن وسنہ ہوگا لیکن گزشتہ 70برس سے پاکستان کی چھوٹی بڑی عدالتیں، عالیہ اور عظمیٰ اینگلو سیکسن قانون کے مطابق فیصلے صادر کر رہی ہیں۔ افواج پاکستان کو اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے استعماری ممالک کی فوج بن کراستعماری مفادات کے لیے کہیں بھی بھیجا جاسکتا ہے اگر نہیں بھیجا جاسکتا تو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی درندوں کو ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو ریزی
کرتے ہوئے، ہمارے کشمیری بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے ہر گز یہ خوف نہیں ہوتا کہ ذرا ہی فاصلے پر ان مظلو موں کے بھائی بند رہتے ہیں جن کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو وہ اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی فریاد سن کر آجائیں۔ اللہ کی آخری کتاب یہود ونصاریٰ کو مسلمانوں کو تا ابد دشمن قرار دیتی ہے لیکن یہود و نصاریٰ ہمارے حکمرانوں کے دوست ہی نہیں آقا ہیں۔ تاریخ کی طاقتور ترین سپر پاور امریکا دیگر چالیس انتہائی ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مل کردنیا کے پس ماندہ ترین اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کرتی ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان پر خوفناک ترین بمباری کرنے کے لیے ہم اتحادی افواج کو فضائی اڈے مہیا کرتے ہیں۔ ان کی افواج کو سور کا گوشت، شراب اسلحہ پہنچانے کے لیے راہ داری مہیا کرتے ہیں۔ قابض امریکی افواج کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین کی اخلاقی مدد کرنا بھی ہمیں گوارا نہیں۔ صلیبی افواج کے ساتھ مل کر ہم بھی انہیں دہشت گرد کہنے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اسلام کے داعی انتہا پسند اور نفرت انگیز مواد پھیلانے کے حوالے سے یاد کیے جانے لگے ہیں۔
پورے ملک میں اس مرتبہ 71واں جشن آزادی نہایت جوش وخروش سے منایا گیا۔ کوئی مبالغہ اس میں نہیں، یہ حقیقت ہے، تاہم جشن آزادی کی تشہیری مہم میں اسلام کے حوالے سے حصول پاکستان کے مقاصد کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ ہماری چاروں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اپنی اساس میں سیکولر اور لبرل جماعتیں ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں اسلام کاضمناً تو نام لیتی ہیں لیکن مدینہ کی ریاست کسی کی منزل نہیں۔ یہ تمام جماعتیں اسی سوچ اور فکر کی علم بردار ہیں پاکستان میں جسے فروغ دینے اور قائم کرنے کے لیے امریکا این جی اوز اور پاکستانی میڈیا میں اپنی سرمایہ داری اور اثر ونفوذ کے ذریعے پوری قوت سے بروئے کار ہے۔ روشن خیالی، سیکولر ازم اور لبرل ازم کے نام پر پاکستان کی اسلامی شناخت اور اسلامی اقدارپر بھر پور حملہ کیا جارہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کیاجائے عرض یہ ہے کہ ہمیں تمام تر نفرت اور حقارت کر ساتھ ان شریفوں خانوں، زرداریوں، بھائیوں، مخدوموں، گیلانیوں، پیروں اور دیگر حکمران بدماشیہ کو دھتکارنا ہوگا جو اپنی ذات اور امریکا کے ایجنڈے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ جن کے مقاصد سیاست میں اسلام کہیں موجود نہیں۔ جو سیکولر ازم، لبرل ازم اور روشن خیالی کے برش سے اپنے بیرونی آقاؤں کے جو تے پالش کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی بد اعمالیاں پاکستان اور اسلام کے حوالے سے ہمارے حوصلوں کو پست کررہی ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف سویلین با لادستی کے لیے جس نئے سوشل کنٹریکٹ یا عمرانی معاہدے کی بات کر رہے ہیں اس کی افادیت بجا لیکن یہ ہماری منزل نہیں۔ ہمیں ایک ہی معاہدے کی ضرورت ہے جس کا عنوان میرے آقا محمد عربی ؐ کا یہ فرمان ہوگا کہ ’’اسلام کے علاوہ سب رد ہے۔‘‘