سرائے کی کہانی

369

baba-alifہزاروں برس سے جاری یہ عجب کہانی ہے۔یہ ایک سرائے کی کہانی ہے۔اس سرائے میں جو بھی قیام کرتا ہے ،جوبھی مسند پر بیٹھتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے اسے سرائے سے کوئی نہیں نکال سکتا۔وہ تا زندگی اس سرائے میں مقیم رہے گا۔
دربار سجاہواتھا۔بادشاہ سلامت پوری شان وشوکت اورجلال وجمال کے ساتھ تخت شاہی پر جلوہ افروز تھے۔درباری بادشاہ کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے۔
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ یہ مال ودولت اور تاج وتخت عارضی اور فانی ہے۔ایسے میں ایک درویش دربار میں داخل ہوااور بادشاہ سے مخاطب ہوکر بولا’’کیا میں اس سرائے میں چند دن قیام کرسکتا ہوں‘‘درویش کے سوال پر دربار میں سناٹا چھا گیا۔بادشاہ غصہ سے آگ بگولا ہوگیااور بولا’’یہ سرائے نہیں میرا محل ہے۔کیا تم نے کبھی اتنی خوبصورت اور عالی شان سرائے دیکھی ہے‘‘درویش نے جواب دیا’’اس جگہ میں جسے تم’’ میرامحل‘‘ کہتے ہوتم سے پہلے کون رہتا تھا‘‘بادشاہ نے جواب دیا’’میراباپ‘‘درویش نے پوچھا ’’اس سے پہلے‘‘ بادشاہ نے کہا’’میرادادا‘‘درویش نے سوال کیا ’’اس سے پہلے‘‘ بادشاہ نے جھنجھلاکر جواب دیا ’’دادا کا باپ‘‘ غرض درویش پوچھتا رہا، بادشاہ اپنے خاندان کے افراد کے نام بتاتا رہا۔ درویش نے کہا ’’تمہارے خاندان سے پہلے‘‘ بادشاہ نے کہا ’’اس خاندان کے افراد جن سے ہم نے تاج وتخت چھیناتھا‘‘ درویش نے ایک قہقہہ لگا یااور کہا ’’اے بادشاہ کسی عقل والے سے پوچھوجس جگہ لوگ چند دن قیام کریں اور پھر چھوڑ کر چلے جائیں اسے سرائے نہیں تو اور کیا کہتے ہیں؟‘‘
سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی اس عبرت کدہ دہر کو جسے ایوان حکومت کہتے ہیں مستقل قیام گاہ سمجھ بیٹھے تھے ۔اب یکایک یہاں سے نکالے جانے پروہ حیران ہیں۔ ان کی حیرت دور نہیں ہورہی۔ اسلام آباد تا لاہور وہ ایک ہی سوال بار بار دہرا رہے ہیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ حالاں کہ وہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ یہاں سے نکالے جاچکے ہیں۔ پاکستان میں اس سرائے تک رسائی کے دوہی راستے ہیں۔ ایک عوامی طاقت یا عوام کاووٹ، عوام کی اکثریت کی تائید۔ دوسرے ان طاقتوں اور قوتوں کی رضا مندی جو ایک ایجنڈے کے تحت حکومتوں کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ ان دونوں قوتوں کو قابو کرکے جب کوئی شخص اس سرائے تک پہنچتا ہے تو وہ خود پر صدقے واری ہورہا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے یہ مقام اور مرتبہ میری کامیاب حکمت عملی کاثمر ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جمہوریت میں منتخب فرد اکثریت کا نہیں اقلیت کا نمائندہ ہوتا ہے لیکن وہ خود کوبیس کروڑ عوام کا نمائندہ باور کرتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا اسے عوام کی تائید حاصل ہوگی۔ وہ پوری قوم کو اربوں ڈالر کا مقروض کردیتا ہے۔ لوگوں کو دوا، تعلیم اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی سے زیادہ وہ سڑکیں، موٹر وے اور ایسے منصوبے بنانے میں جت جاتا ہے جو دیکھنے میں بارعب اور متاثر کن ہوں۔ وہ سمجھتا ہے عوام نے مجھے پانچ سال کے لیے ووٹ دیا ہے۔
میں جو چاہوں کروں،مجھے مکمل اختیار ہے۔ میں کرپشن کروں عدالت کو اختیار نہیں مداخلت کرے۔ توہین رسالتؐ کے مرتکبین کی سزاکو التوا میں رکھوں اور عاشق رسول ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھادوں، عوام کو اختیار نہیں کہ احتجاج کرکے میرے ارادوں کو بدل سکیں، سود کی بقا کے لیے حکومت سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردے اور تقریباً بیس برس سے اس معاملے کو معلق رکھے، کسی دینی جماعت اور علما کرام کے طبقے کو اجازت نہیں کہ اس پر زور دے اور تنقید کرے۔
اس سرائے کے مکین اگر کسی سے خوفزدہ ہوتے ہیںیا کسی کی خوشنودی کے آرزو مند ہوتے ہیں تو یہ وہ بادشاہ گر ہیں جو انہیں اقتدار میں لاتے ہیں۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں ان قوتوں کے ساتھ بھی جیسے تیسے بن پڑا اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں کوشاں رہے۔ عمران خان کے دھرنے اور پرزور مخالفت بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ جس عمدگی اور تیز رفتاری سے انہوں نے بجلی، گیس اور امن وامان کی خراب صورت حال پر قابوپایا اور بڑے بڑے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے ان کی جس قدر تحسین کی جائے بجا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ابھی تک ایسے کوئی شواہد سامنے نہیںآئے کہ انہوں نے کرپشن کی ہو یا کسی حکومتی سودے میں کک بیکس یاکمیشن لی ہو۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دوران انہوں نے اپنے خاندانی کاروبار اور دولت میں اضافے کے لیے تمام جائز ناجائز حربے استعمال کیے۔ برطانوی صحافی خاتون ایما ڈکسن کی مشہور کتاب ’’بریکنگ کرفیو‘‘ میں باقاعدہ چارٹ موجود ہے کہ جب نواز شریف اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کا بزنس کیسے بڑھتا ہے اور جب وہ باہر ہوتے ہیں تو کاروبار کتنا متاثر ہوتا ہے۔ دبئی سے جدہ تک وہ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرتے چلے گئے ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ان سے اس کا جواب طلب کیا جائے گا۔ فوجی ڈکٹیٹروں کے بعد ہماری عدالتوں نے اگر کسی کو ریلیف دیا ہے تو وہ نواز شریف ہیں۔ ہماری عدلیہ کی یہی روایت تھی۔ اسی بناپر نواز شریف ازخود سپریم کورٹ گئے تھے۔ کسے خبر تھی کہ عدلیہ یوں نواز شریف کے درپے ہوگی اور ان کی اقتدار سے رخصت کی وجہ۔
نواز شریف کا اہل ریا اور خوشامدیوں نے اس طرح محاصرہ کررکھا ہے کہ اعتدال کی بات کرنے والوں کا اب ان کے قریب گزر نہیں۔ وہ حقائق کا سامنے کرنے سے گریزاں اور مسلسل خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ وہ خود فریبی کے اس درجے پر ہیں جہاں انسان خود کو مظلوم اور باقی دنیا کو ظالم باور کرتا ہے۔ اسلام آباد تا لاہور وہ اقامے اور بیٹوں سے تنخواہ نہ لینے کا ذکر کرتے رہے۔ اب انہیں کون بتائے کہ حضور آپ کا اقامہ کسی مزدور کا اقامہ نہیں ہے بلکہ یہ لوٹی ہوئی دولت کو ٹھکانے لگانے اور دنیا کے مختلف بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے تھا۔ جہاں تک بیٹوں سے تنخواہ نہ لینے کا معاملہ ہے تو یہی تواصل جواب طلب بات ہے کہ آپ کے بیٹے اس کم عمری میں اس قابل کیسے ہوگئے کہ ڈالروں اور درہم ودینار کے ڈھیروں پر بیٹھ کر آپ جیسے ارب کھرب پتی کو ملازمت دے رہے ہیں۔میاں نواز شریف خود فریبی کی اس منزل پر ہیں یا وہ عوام کو فریب دے رہے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اس بنا پر نااہل قرار دیے گئے ہیں کہ دبئی سے جدہ تک اربوں کھربوں ڈالر کی منی ٹریل کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔ جس قطری شہزادے کے خط پر انہوں نے جھوٹ کا محل کھڑا کرنے کی کوشش کی وہ محض افسانہ تھا۔ میاں صاحب کو حالات کی جن تندوتیز موجوں کو سا منا ہے وہاں جو چیز انہیں عافیت کے ساحلوں سے ہمکنار کر سکتی ہے وہ حقائق کا سامنا،خود آگہی اور توازن و اعتدال ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ لوگ اقتدار کی اس عبرت سرا میں ایک دروازے سے داخل ہوتے ہیں اور دوسرے دروازے سے اعتدال رخصت ہوجاتا ہے۔یہی اس سرائے کی کہانی ہے جو ہزاروں برس سے دہرائی جارہی ہے اور نہ جانے کب تک دہرائی جاتی رہے گی۔