سندھ حکومت بھی تصادم کی راہ پر 

190

Edarti LOHایک جانب وفاقی حکومت اداروں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہوگئی ہے تو دوسری طرف سندھ حکومت باقاعدہ اداروں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اب تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ ہم نے نیب کو سندھ میں کارروائی سے روک دیا ہے ایف آئی اے بھی حد میں رہے۔ کسی ایک فرد کے آنے سے ادارے نہیں بدلتے۔ انہوں نے کہا کہ نیب صرف وفاقی محکموں میں کارروائی کرسکتا ہے۔ ہماری فائلیں لے جائیں گے تو کام کیسے ہوگا۔ وزیر اعلیٰ سندھ اپنے صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں انہوں نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو میئر کراچی نے اختیار کر رکھا ہے۔یعنی ان کا کام دوسرا کرے ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے وفاق بھی کام کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعلیٰ سندھ نیب آرڈیننس کے مندرجات سے ناواقف ہیں یا اب کوئی ایسی بات ہوگئی ہے کہ نیب کے اختیارات ایک صوبہ محدود کرسکے گا۔ نیب آرڈیننس کے مطابق اس کا اطلاق پورے پاکستان اور ہر پاکستانی پر ہوتا ہے۔ اس کی دفعہ 22کے اندر تفصیل درج ہے جو نیب کی حدود کار کا تعین کرتی ہے اس میں نہایت واضح طور پر نیب کو پورے پاکستان میں ہر پاکستانی کے خلاف کارروائی کا اختیار دیاگیا ہے یا جس کے خلاف نیب چیئرمین کو واضح ثبوت یا ٹھوس بنیادوں پر شکایات موصول ہوں ۔ نیب ان کے خلاف بھی کارروائی کرسکتا ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ سندھ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے نیب کو سندھ میں کارروائی سے روک دیا ہے۔ اس کا سبب وہ متنازع قانون ہے جو انہوں نے منظور کیا ہے۔ یہ قانون براہ راست آئین سے متصادم ہے۔ لیکن پھربھی وزیرا علیٰ کا اصرار ہے کہ نیب سندھ میں کارروائی نہ کرے۔ تاہم نیب نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم سندھ میں کارروائی کرتے رہیں گے۔ گویا سندھ اور وفاق کے ایک ادارے کے درمیان تصادم شروع ہوگیا ہے۔ اگرچہ سندھ حکومت رینجرز کے معاملے میں بھی تحفظات کا رکھتی ہے لیکن اس ادارے سے تصادم کی ہمت نہیں کرتی۔ تھوڑی بہت گرما گرمی کے بعد ہر مرتبہ رینجرز اختیارات میں توسیع کردی جاتی ہے۔ و زیر اعلیٰ نے دوسرے ادارے ایف آئی اے کوبھی تنبیہ کی ہے کہ وہ بھی حد میں رہے لیکن کیا ایف آئی اے کی حدود سندھ میں ختم ہو جاتی ہیں۔ ایف آئی اے ایک وفاقی ادارہ ہے اس کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ وفاقی اداروں تک محدود ہے لیکن اس کے بارے میں بھی جو معلومات ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور دستوری طور پر بتایاگیا ہے کہ یہ ادارہ پورے پاکستان میں اور انٹرپول کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انسداد بدعنوانی ، معاشی جرائم، انسداد دہشت گردی ، انسانی اور اشیا کی اسمگلنگ روکنے کے فرائض ادا کرتا ہے اور یہ سارے جرائم صرف وفاقی اداروں میں نہیں ہوتے۔ بدعنوانی جہاں ہوگی یہ پہنچے گا اسی طرح اسمگلنگ میں بھی صوبے اور ان کی سرحدیں استعمال ہوتی ہیں فضائی اور بحری اڈے استعمال ہوتے ہیں لہٰذا ایف آئی اے کی حدودبہت وسیع ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب سابق وزیر اعظم بھی بڑھ چڑھ کر اداروں کو چیلنج کررہے ہوں اور عبوری حکومت بھی عبوری رہنے کے بجائے مستقل حکومت بننے کے لیے کوشاں لگتی ہے۔ بار بار وزرا کی جانب سے کہا جارہا کہ عوام عدلیہ کا فیصلہ نہیں مانتے۔ بات یہ ہے کہ حکمران عدلیہ کا فیصلہ نہیں مانتے ۔ یہ درست ہے کہ فیصلے میں ابہام ہے لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں کہ مجمع میں جا کر اسے غلط قرار دیا جائے۔ عدالت موجود ہے وہاں جائیں ۔ چیلنج نہیں ہوسکتا تو کیا ہوا نیا مقدمہ درج کرائیں نئی درخواست دیں یہ طریقہ اختیارکرنے سے محض اداروں کے درمیان تصادم کا ہی تاثر بنتا ہے۔ ویسے بھی کوئٹہ سانحے پر آرمی چیف اور وزیر داخلہ احسن اقبال کے بیانات سے بھی اسی طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی کھچڑی اندر اندر پک رہی ہے ۔ وزیر داخلہ کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ’’ یہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نہیں دہشت گردی کو نیچا دکھانے کا ہے ‘‘۔ کون ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہاہے۔ کیا اخباری بیانات کے بغیر حکمرانوں کا کام نہیں چل سکتا اگر مسلم لیگ ن کے سابق رہنما میاں نواز شریف اور عبوری حکومت کے وزرا اخبارات میں عدلیہ کے فیصلے کو زیر بحث لانے کے بجائے متعلقہ اداروں میں جائیں قانونی جنگ لڑیں اور اسے میڈیا کی جنگ نہ بنائیں تو ان کے لیے بھی بہتر ہوگا اور ملک کے لیے بھی۔ جب اس قسم کی بیان بازیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو فوج بھی حرکت میں آتی ہے اگرچہ پاک فوج کی جانب سے اس کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا ہے لیکن جس قسم کے بیانات داغے جارہے ہیں اور ماحول بنایا جارہا ہے وہ میاں نوازشریف کے سیاسی شہید بننے کے خواب کو پورا کرسکتا ہے۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے و زیر اعلیٰ سندھ بھی میدان میں کود پڑے ہیں ۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اچھی بات کہی ہے کہ بزرگوں نے وطن کو پاؤں پر کھڑا کیا، لیکن ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں جن سے سیکھا ہے ان کی بات سے کون انکار کرسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اس کی بھی وضاحت کردیتے کہ ’’ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں اور کیا سیکھا ہے ‘‘۔اس کے آثار تونظر نہیں آتے۔ بھارت نے ملک دو لخت کرنے کی سازش کی اور ہماری فوج نے ہتھیار ڈال کر اس کو کامیاب بنایا۔ اس سے ہم نے کیا سیکھا؟؟ بھارت کشمیر میں فوجی طاقت بڑھاتا جارہا ہے لیکن ہم کشمیریوں کی مدد اس طرح نہیں کر پا رہے جس طرح ان کا حق ہے۔ بار بار سیاست میں براہ راست کودنے کے تجربے سے یقیناًفوج نے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہر ایک عشرے کے بعد فوج نے ’’انتہائی مجبوری‘‘ کے عالم میں ریاست کو بچانے کی خاطر سیاست میں قدم رکھا۔ 1958ء کے مارشل لا کے خاتمے کے بعد صرف 6سال کے لیے جمہوری حکومت قائم ہوئی تھی اور پھر 77ء میں 11سال کے لیے فوج آگئی۔ 1988ء میں فوج کو حادثے کی صورت میں جانا پڑا تو صرف 11 برس کے بعد پھر 1999ء میں فوج آگئی۔ اس مرتبہ 9 برس میں فوج کو ہٹنا پڑا۔ اس اوسط کے اعتبار سے اب تقریباً دس سال ہی ہوئے ہیں فوج کو اقتدار سے دور رہتے ہوئے۔ اب اس بات کا امتحان ہے کہ فوج نے سیاست میں بار بار کودنے کے تجربات سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں۔ بظاہر تو فوج نے سیاست میں براہ راست مداخلت نہ کرنے کی بار بار یقین دہانی کرائی ہے اور جنرل راحیل شریف نے بھی ایسا ہی کہا تھا حالانکہ ان کے حوالے سے تو ایسا لگتا تھا کہ کسی اقدام کی تیاریاں ہیں لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اب جب کہ فوج نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے اور فوج کے سویلین ترجمان عمران خان نے بھی تازہ بیان یہی دیا ہے کہ آرمی چیف نے 3 بار کہا کہ جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ اس سے قبل بھی عمران خان یہی ترجمانی کرچکے ہیں کہ فوج سیاست میں نہیں آرہی۔ یا تو وہ ترجمانی کررہے ہیں یا استعمال ہورہے ہیں۔ انہیں یہ بات کرنی ہی نہیں چاہئیں۔ یہ فیصلہ اور بیانات فوج کا کام ہیں۔ بہر حال پاکستان کے 70 برس گزرنے کے باوجود بہت سی بحثیں جاری ہیں جو اس ملک کے نظریے کے حوالے سے ہیں ان کے حوالے سے قوم اور سیاسی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ سیکھنا ہوگا ورنہ ایک ایک کرکے ہماری بنیادوں کو کھود ڈالا جائے گا۔