ملکی صورتحال بہت ساری باتیں بتارہی ہے۔ صرف مسلم لیگ ن اور عدلیہ و فوج کے درمیان تناؤ نہیں ہے، رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان بھی تناؤ ہے، مسلم لیگ کے نامزد گورنر سندھ اور صوبائی حکومت کے درمیان بھی کھنچاؤ ہے۔ ابھی تو بیان بازی تک بات ہے لیکن یہ بیان بازی ہی تو کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں۔ کے پی کے میں بھی کھینچا تانی ہے۔ گویا 2018ء کے انتخابات یا کچھ اور !!! کے لیے کہانیاں تیار ہیں، سیاسی بے یقینی پیدا کی جارہی ہے اور حکمران اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو 2018ء کے انتخابات تک بات نہیں پہنچ سکے گی۔ صرف عبوری وزیرداخلہ کا بیان سامنے رکھیں انہیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ یہ وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نہیں دہشت گردوں کو نیچا دکھانے کا ہے۔ سابق وزیر داخلہ وہ انکشاف کیے بغیر صاف نکل گئے کہ جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے خلاف سازش کے صرف وہ اور دوسرے چار لوگ گواہ ہیں۔ پانچ میں سے ایک نا اہل ہوگیا دو سابق ہوگئے اب دو جرنیل تو بتانے سے رہے کہ کیا سازش ہورہی ہے لیکن کچھ تو ہوگا۔ اب عبوری وزیرداخلہ بھی اندیکھے دشمن کو للکار رہے ہیں حالانکہ ان کی جانب سے یہ غیر ضروری ہے۔ میاں نواز شریف ایسی باتیں کریں تو سمجھ میں آتی ہیں کہ وہ تازہ تازہ زخم خوردہ ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر دیا تھا کہ لاہور پہنچ کر وہ کوئی انقلابی پیغام دیں گے لیکن یہی پیغام دہرادیا کہ مجھے سازش کے تحت نکالا گیا اور ووٹ کے تقدس کو قومی ایجنڈا نمبرون قرار دیا جائے لیکن بھائی اب کیوں۔ بات وہیں پہنچتی ہے کہ ووٹ کے تقدس سے زیادہ نظریہ پاکستان اور اسلام کا تقدس ہے آپ اس سے بڑھ کر ووٹ کو مقدس نہ بنائیں اس کے نام پر آئین میں ترمیم کا ایجنڈا ظاہر کیا جارہاہے۔ آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ملک کو کس طرف لے جایا جارہاہے۔ آیا ووٹ کے تقدس کے نام پر مسلم لیگ کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت دی جائے گی یا تصادم، تکرار اور ٹکراؤ کے نتیجے میں سب کچھ لپیٹ دیا جائے گا۔
ایک مخمصہ عمران خان کا بھی ہے ان کے ساتھ ایک ہی دور حکومت میں تیسرا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔ پہلی مرتبہ وہ نہایت تیزی سے اوپر گئے، اسٹیج سے گرے بھی لیکن بچ گئے اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ وہی آگے جائیں گے لیکن شجاع پاشا ہی چلے گئے اور الیکشن میاں نواز شریف جیت گئے۔ الزامات لگے، رات 11 بجے نتائج تبدیل کرنے کی بات کی گئی لیکن کسی نے کچھ نہ کچھ تو کیا تھا۔ عمران خان الیکشن میں آگے جاتے جاتے تیسرے نمبر پر آگئے پھر دھرنوں کے دوران تو ایسا لگتا تھا کہ حکومت آج گئی کہ کل اور عمران خان ہی معاملات سنبھالیں گے لیکن اچانک پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کرنے والے عمران خان پارلیمنٹ میں آگئے اور گنتی نئے سرے سے شروع ہوگئی اب پھر نئی گنتی سے نئے الیکشن سرپر ہیں کس نے کس کو کیا یقین دلایا ہے اور معاملات کس کے ساتھ طے ہونے جارہے ہیں اس کا تو 2018ء میں ہی علم ہوگا۔ کون ایجنڈے کا ساتھ دیتا ہے، کتنا ساتھ دیتا ہے، اپنی شرائط پر ساتھ دے گا یا مکمل سپردگی۔ بس پھر وہی آگے آئے گا۔