ہائے میاں محمد نواز شریف

275

حبیب الرحمن
پاکستانی عدالتوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کے ہر بڑے اور اہم فیصلے ’’تشکیک‘‘ سے پر ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر اچھائیوں کے باوجود بھی اس تاثر کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتیں کہ وہ کسی دباؤ کے بغیر فیصلے کر رہی ہیں۔ پاناما لیکس کے تحت چلنے والا یہ مقدمہ اس لحاظ سے تو لائق تحسین تھا کہ اس کا آغاز ’’اوپر‘‘ سے ہوا ورنہ اس قسم کے مقدمات کو ’’نچلی‘‘ سطح سے شروع کیا جاتا ہے اور عام طور پر وہ اوپر جانے سے قبل ہی ختم ہوجاتا ہے۔اس ’’لیکس‘‘ میں کم و بیش 450 افراد ملوث تھے لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف پر ہی مقدمے کا یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ یہ ہے وہ بات جو بہر حال ناقدین کو مواقع فراہم کر رہی ہے۔ ایک بات اور بھی بہت غور طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ 27 جولائی کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے ایک ’’شیڈول‘‘ جاری کیا گیا تھا اور اس کے تحت 31 جولائی سے 14اگست تک کوئی جج بھی میسر (فارغ) نہیں تھا۔ یہ بات سہ پہر تک ایسی ہی تھی جس سے اس بات کا خدشہ پیدا ہو چلا تھا کہ کیس کا جو بھی ’’محفوظ‘‘ فیصلہ ہے وہ 14 اگست کے بعد ہی سنایا جائے گا لیکن رات ہوتے ہی یہ اعلان ہوا کہ کل یعنی 28 جولائی کو دن ساڑھے گیارہ بجے کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ چند گھنٹوں میں عدالت عظمیٰ کا شیڈول تبدیل ہوجانا معنی تو رکھتا ہے۔ میں جناب ’’ڈاکٹر عبدالرشید جنید صاحب‘‘ کے ایک مضمون سے استفادہ کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کا مختصر دور حکمرانی بیان کر رہا ہوں جو قارئین کے لیے معلوماتی بھی ہوگا اور دلچسپی کا سبب بھی بنے گا۔
پاکستانی حکمرانوں کی تاریخ بھی بڑی عجیب رہی ہے۔ 28 جولائی 2017کو ایک بار پھریعنی تیسری مرتبہ میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمی کی کرسی سے سبک دوش ہونا پڑا۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناماکیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا جس کے بعد نواز شریف اپنی تمام ذمے داریوں سے سبک دوش ہوگئے۔ عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کے خلاف چار الزامات میں ریفرنس دائر کرنے کا قومی احتساب بیورو کو حکم دیا ہے لیکن انہیں نااہل قرار دیے جانے کی بنیاد اس فیصلہ سے نہیں ہوئی۔ عدالت نے28 جولائی کو اپنے متفقہ فیصلہ میں لکھا کہ میاں محمد نواز شریف عوامی نمائندگی کے قانون ، سیکشن 99f اور 1973 کے آئین شق 62 (ایک) (ف) کے تحت ’’صادق‘‘ نہیں اس لیے انہیں مجلس شوریٰ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ متحدہ عرب امارات کی کمپنی ’’کیپٹل ایف زیڈ ای‘‘ سے ان کے نام کی وہ تنخواہ جو انہوں نے کبھی وصول نہیں کی۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثوں کا ذکر نہ کرنا غلط بیانی ہے اور عوامی نمائندگی کے قانون کی خلاف ورزی ہے، اس لیے وہ صادق نہیں۔ اسی فیصلہ کے تحت پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف28 جولائی کو وزارتِ عظمی سے مستعفی ہوگئے۔ عدالت عظمیٰ کی پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے میں اپنے متفقہ فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے اور ان کے افرادِ خاندان کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پورے ملک میں بدترین قتل و غارت گری رہی تھی اور کئی اہم سیاسی قتل بھی ہوئے تھے جن میں جماعت اسلا می کے قومی اسمبلی کے رکن جناب ڈاکٹر نذیر احمد (ڈی جی خان) کا قتل بھی شامل ہے لیکن وہ ’’قصوری‘‘ کے قتل میں اس بری طرح پھنسے کہ تختہ دار تک جا پہنچے۔ ایسا ہی کچھ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ شاید اسی کو مکافات عمل کہا جاتا ہے۔
میاں نواز شریف جنہوں نے 1970کی دہائی کے آخر میں سیاست میں داخل ہونے سے پہلے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 1981ء میں محمد ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دوران پنجاب کے وزیر خزانہ بنے اور ان ہی کے دور میں دوبارہ مارشل لا کے بعد 1988میں وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ نواز شریف 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سربراہی کی جس میں انہیں فتح حاصل ہوئی اور پہلی مرتبہ وہ 6 نومبر 1990 کو وزیراعظم پاکستان بنے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی نے نواز شریف پر الزام لگایا کہ انہوں نے انتخابی عمل میں لاکھوں روپے کی رشوت سیاست دانوں میں تقسیم کی۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزام میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کردیا جس پر نواز شریف نے عدالت عظمیٰ پاکستان سے رجوع کیا۔ 15 جون 1993ء کو چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے نواز شریف کو بحال کردیا۔ نواز شریف نے جولائی 1993ء کو ایک معاہدے کے تحت استعفا دیدیا جس کے باعث صدر کو بھی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
(جاری ہے)