آئین کے خلاف اتحاد

214

Edarti LOHصدر مملکت ممنون حسین نے 14 اگست کے موقع پر مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام اور تمام اداروں سے کہا ہے کہ قومی مفاد میں آئین پاکستان پر متحد ہوجائیں۔ صدر مملکت نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اجتماعی فیصلوں کا احترام نا گزیر ہے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا بیان بھی بڑا بروقت اور معنی خیز ہے کہ سب کچھ جل جائے لیکن آئین کو جلنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو بھی پیغام دیا کہ نئی اسمبلی بنے گی تو دفعہ 63،62 کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اس بارے میں خورشید شاہ اور پیپلزپارٹی کا موقف یہ ہے کہ جب آصف زرداری کو پھنسانے کے لیے دفعہ 63، 62 استعمال کرنے کی غرض سے اسے نواز شریف نے ختم نہیں ہونے دیا تھا تو اب ہم بھی اسے ختم نہیں ہونے دیں گے۔ صدر مملکت اور اپوزیشن لیڈر کی باتیں سننے میں کہنے میں اور پڑھنے میں بڑی اچھی لگتی ہیں کہ آئین پر سب متفق ہوجائیں۔ آئین مقدس ہے۔ آئین کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے گا، آئین کی بالادستی ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئین کی بالادستی اس پر قوم کا متفق ہونا، اس کو مقدم رکھنا یہ محض موسمی معاملہ ہے۔ آج کل آئین بچانے کا موسم ہے آئین کی بالادستی کب ہونی چاہیے اور کن کن مواقع پر آئین کو مقدم رکھا جانا چاہیے آئین پر اتفاق رائے کب ہونا چاہیے ان سوالات کا جواب صدر مملکت ممنون حسین، سید خورشید شاہ، میاں نواز شریف یا میاں رضا ربانی کے پاس بھی نہیں۔ اس آئین کو اس وقت کیوں یاد کیا جاتا ہے جب حکمران مشکل میں ہوتے ہیں۔ ہم صدر مملکت سے بھی سوال کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو اپنے چار سالہ دور صدارت میں سب کو آئین پر متفق کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ جب آپ کی ناک کے نیچے اور سر کے اوپر میاں نواز شریف کی حکومت آئین پامال کررہی تھی تو آپ نے یہ بات کیوں نہیں کہی۔ آئین پاکستان تو کہتا ہے کہ پاکستان میں اردو سرکاری زبان ہونی چاہیے لیکن آپ کی حکومت یہ کام نہیں کرتی۔ آئین کہتا ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے اس کے منافی قوانین کو دستور سے نکال دیا جائے گا۔ اس آئین کے تحت سودی نظام کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا لیکن جب میاں صاحب کی حکومت سودی نظام کے حق میں وکیل کھڑا کررہی تھی تو اس وقت بھی آئین کی پامالی پر سب متفق تھے۔ یہ ایک مخمصہ ہے کہ آئین پر اتفاق رائے سب چاہتے ہیں لیکن کوئی دفعہ 63، 62 ختم کرنے پر اتفاق رائے چاہتا ہے اور کوئی حدود آرڈیننس پر اتفاق رائے چاہتا ہے۔ آئین اور اسمبلی میں سب سے زیادہ اتفاق رائے قوم نے صرف اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کے موقع پر دیکھا ہے۔ تمام حکمران اور اپوزیشن والے بھی متفق نظر آتے ہیں جو لوگ اسمبلی اور پارلیمنٹ توڑنے کے درپے ہوتے ہیں وہ بھی تنخواہوں میں اضافے کے لیے اتفاق رائے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس آئین کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے مطابق ہر حکمراں من مانی کرتا ہے۔ اپنی مرضی چلاتا ہے آئین کو ایک طرف رکھنا اور اپنے فیصلے عددی اکثریت کی بنیاد پر مسلط کرتا ہے۔ اسی آئین کے تحت اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کی قسم کھائی جاتی ہے لیکن اسمبلیوں میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف قانون سازی کی جاتی ہے۔ آج کل آئین پر اتحادی دعوے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سب لوگ آئین پر متحد کیوں ہونا چاہ رہے ہیں؟ کیا کوئی ایسا تنازع ہے جس کا کوئی سرا نہیں مل رہا۔ کوئی صوبہ ناراض ہے اسے اس کے حصے سے کم مل رہا ہے کوئی صوبہ اپنے حصے سے زیادہ وصول کررہا ہے۔۔۔ نہیں ایسا تو نہیں ہے ۔۔۔ پھر کیا کسی آئینی شق کی تشریح درکار ہے؟؟ ایسا بھی نہیں تو پھر کون سا ایسا آئینی بحران ہے جس کے لیے سب آئین پر متفق اور متحد ہوجانا چاہتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آئین کی ایک شق کی زد میں کوئی آرہا ہے تو وہ آئین ہی بدلنا چاہتا ہے اس مقصد کے لیے سب کو آئین پر متحد ہونے کی دعوت دی جارہی ہے۔ یعنی اس اتحاد کی بنیاد ہی آئین شکنی ہے جس اتحاد کی بنیاد آئین پر عمل سے گریز ہو وہ آئین کے حق میں ہو یا آئین کے خلاف۔۔۔ صدر مملکت تو آئینی سربراہ ہیں انہیں بھی اس حوالے سے خدا لگتی کہنی چاہیے نہ کہ وہ ہر معاملے کو پارٹی مفادات کی عینک سے دیکھیں۔ لیکن عملاً یہی ہورہا ہے کہ سندھ میں صوبے کا آئینی سربراہ گورنر کے بجائے پارٹی کا نمائندہ بنا ہوا ہے اور ان کا بیٹا تو گورنر ہاؤس میں اجلاس، ملاقاتیں اور میٹنگز کی صدارت کررہا ہے۔ اگر اسی کو آئین پر متحد ہونا کہتے ہیں تو پھر اس آئین کا خدا ہی حافظ ہے۔ صدر مملکت کہتے ہیں کہ قوم کے جمہوری مزاج سے مطابقت رکھنے والا نظام برگ وبار نہ لاسکا۔ اعتدال کو فروغ دیا جائے۔ جناب صدر یہ حقیقت تو آپ نے خود کھول کر رکھ دی کہ قوم کا مزاج تو جمہوری ہے لیکن اس نظام پر براجمان لوگوں نے اس کو برگ و بار لانے سے محروم کردیا۔ صرف میاں نواز شریف کا مسئلہ نہیں ہے۔ بھٹو، بے نظیر، چودھری شجاعت، شوکت عزیز، معین قریشی کون جمہوری مزاج کا تھا۔ ایک لیاقت علی خان تھے اور ایک محمد خان جونیجو ۔ایک کو قتل کردیا گیا دوسرے کو حکومت سے باہر کردیا گیا۔ باقی فوجی حکمرانوں کا مزاج تو کبھی جمہوری ہوتا ہی نہیں وہ لاکھ کہیں کہ ہم جمہوریت کے ساتھ ہیں یا کسی سے کہلوائیں وہ کسی طور بھی جمہوری مزاج والے نہیں ہوسکتے۔۔۔ صدر صاحب تو مسلم لیگ کے ترجمان ہیں وہ یہ بتائیں کہ قوم کے جمہوری مزاج سے مطابقت رکھنے والا نظام ان کے ادوار میں کیوں برگ و بار نہیں لاسکا۔ یا یہ تاریخ کا جبر ہے کہ جس نظام کو جمہوریت کہا جاتا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے لیکن یہاں صورت یہ ہے کہ عوام کو کبھی ووٹوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اب اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ ایم کیو ایم نے ٹھپا ٹیکنالوجی متعارف کرادی تھی۔ اب کوئی نئی ٹیکنالوجی آجائے گی عوام کے ساتھ، عوام کے ذریعے عوام کے لیے کوئی حکومت نہیں ہوتی۔ بھٹو کی حکومت عوام کے ذریعے بس عوام کے نام پر چلی اور اپنے لیے چلی۔ یہی روایت سارے سیاسی رہنماؤں کی حکومت کی تھی اور فوجی جرنیلوں نے ریاست کے نام پر حکومتیں کیں۔ جناب صدر اس پر بھی غور فرمائیں۔