اسلام آباد(نمائندہ جسارت ) سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف نے پاناما فیصلے کے خلاف نظرثانی کی 3درخواستیں دائر کر دی ہیں۔34صفحات پرمشتمل یہ درخواستیں منگل کو ان کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے جمع کروائی گئیں۔ایک درخواست میں سراج الحق ، وفاق، کابینہ ڈویژن اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بنایا گیا ہے، دوسری درخواست میں عمران خان، نیب، وفاق، سیکرٹری داخلہ ،ایف بی آر، مریم نواز ، حسین نواز ، حسن نواز، کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کو فریق بنایا گیا ہے جب کہ تیسری درخواست میں شیخ رشید احمد ، وفاق، کابینہ ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، نیب اور ایف بی آر کو فریق بنایاگیا ہے۔جن میں استدعا کی گئی ہے کہ پاناما کیس میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی درخواستوں پر الگ الگ نظر ثانی کی جائے۔پاناما فیصلے کے 17روز بعد جمع کرائی گئی ان درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے 5رکنی بینچ کی طرف سے 28 جولائی کو سنائے گئے فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔پاناما کیس کا فیصلہ قانون کے خلاف اور حقائق کے منافی ہے۔ نواز شریف کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انہیں جس بنیاد پر نااہل کیا گیا، وہ ان کے خلاف دی گئی درخواستوں میں شامل ہی نہیں تھا۔وصول نہ کی گئی تنخواہ پرنااہل نہیں کیاجاسکتا،تعین کرناضروری تھاکہ تنخواہ ظاہرنہ کرنے کی وجہ کیاہے۔عوامی نمائندے ایکٹ کے تحت نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے اختیارات استعمال کیے ، لہٰذا عدالت عظمیٰ فاضل ججز پر مشتمل بینچ کے فیصلے اور نیب میں ریفرنسز دائر کرنے کے حکم پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔درخواست گزار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں رکن اسمبلی کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے متعلقہ فورم الیکشن کمیشن موجود ہے۔ عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ جب تک نظرثانی کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک 5رکنی بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ نظرثانی کی درخواستوں میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے قومی احتساب بیورو کو نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے احکامات کو بھی چیلنج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ عدالت کا یہ حکم اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔ نگران جج کی تعیناتی سے عدالت کا کردار شکایت کنندہ کا لگتا ہے،جے آئی ٹی کی تعریف کرنے سے شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوگا۔نوازشریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد عدالت کی جانب سے دوبارہ 5رکنی بینچ تشکیل نہیں دیا گیا تھا ، دوسری جانب جے آئی ٹی کی تشکیل درخواست گزار کے بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کی خلاف ورزی ہے، اس طرح 20 اپریل کا فیصلہ 28 جولائی کے فیصلے کا لازمی حصہ نہیں بن سکتا ہے ۔ نظرثانی کی درخواستوں میں کہا گیاہے کہ 20 اپریل کے فیصلے کے بعد پاناما کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے3رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا، جس کے بعد 20 اپریل کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے 2ججز صاحبان کا عمل درآمد بینچ کے فیصلے میں شامل ہونا قانونی حوالے سے درست اقدام نہیں۔ درخواست میں کہا گیاہے کہ پاناما کیس کافیصلہ تب سنایا جاسکتا تھا جب جے آئی ٹی رپورٹ مکمل طور پرعدالت میں جمع کرائی جاتی ، ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ مکمل نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود فیصلہ سنایا گیا ، درخواستوں میں کہا گیاہے کہ 28 جولائی کے فیصلے میں بہت ساری خامیاں موجود ہیں،آئین اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ اعلی عدلیہ ماتحت عدلیہ میں کیسوں کی سماعت کی نگرانی کرے۔