آزادی کا جشن یا تقسیم کا ماتم؟

375

zc_Jilaniبرطانیہ کے میڈیا نے پاکستان کے قیام اور ہندوستان کی آزادی کی سترویں سالگرہ پر تقسیم کے المیہ پر ہائے ہائے مچا رکھی ہے اور عمداً سارا زور دونوں ملکوں کی آزادی کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات، قتل و غارت گری اور لاکھوں افراد کے انتقال آبادی پر دیا جارہا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دونوں جانب یہ فسادات جن میں دس لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بنے اور ایک کروڑ سے زیادہ افراد اپنا گھر بار اور اپنا وطن چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ایک بڑا المیہ تھا، لیکن اس موقع پر بی بی سی اور برطانوی اخبارات نے دونوں طرف کے ظلم و ستم، عوام کے مصائب، دکھ درد اور پرانی سلگتی ہوئی تلخ یادوں کو ہوا دی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمداً تقسیم کے المیہ کو ایسے ڈرامائی انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، تاکہ اس کے پیچھے یہ حقیقت چھپ جائے کہ برصغیر کے عوام نے برطانوی سامراج کے دو سو سالہ تسلط سے آزادی اور پاکستان کے حصول کے لیے کیسے بے مثال جدوجہد کی اور کتنی شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا کر کے آزادی کے حصول کا کارنامہ انجام دیا۔ تقسیم پر اس ہاؤ ہو کا مقصد بہت سے لوگوں کے نزدیک امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے قتل عام کے سانحے کی یاد پر پردہ ڈالنا ہے، تحریک خلافت کی یاد کو مٹا دینا ہے جو بڑی حد تک برطانوی سامراج کے خلاف تحریک تھی اور جس کے دوران ہزاروں افراد نے ہندوستان سے افغانستان ہجرت کی اور صعوبتیں برداشت کیں۔ اس کا مقصد، آزادی کے متوالے بھگت سنگھ کی یاد کو بھلا دینا ہے جنہیں بائیس سال کی عمر میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ پھر اس کا مقصد سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کو تاریخ کے گم نام گوشوں میں دھکیل دینا ہے جس نے برصغیر کے عوام میں آزادی کی ایک نئی تڑپ پیدا کی تھی۔ اور 1946 میں کراچی سے کلکتہ تک تمام بندرگاہوں میں برطانوی بحریہ میں بغاوت کو بھی بھلا دینا ہے جس نے آخری دنوں میں برطانوی راج کے قدم ڈگمگا دیے تھے۔
پھر تقسیم کے اس ماتم کے دوران اس حقیقت کا کوئی ذکر نہیں کہ وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے بر صغیر کی ’’تقسیم‘‘ ناگزیر ہو گئی تھی۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد برطانوی سامراج نے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق اور عداوت کو ہوا دی، مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں پس ماندہ رکھنے کے لیے ان کے خلاف امتیازی رویہ برتا گیا، ہندی اور اردو کے تنازعے کو شہہ دی گئی، گائے کُشی کے خلاف ہندو شدت پسندوں کی تحریک کی حوصلہ افزائی کی گئی، ان تمام اقدامات کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ان کے قائدین نے 1906 میں ڈھاکا میں آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی۔ اس وقت بنیادی مقصد مسلمانوں کی شہری آزادیوں، حقوق کے تحفظ اور مسلمانوں کی تعلیم اور ان کے روزگار کے فروغ کے لیے جدو جہد کرنا تھا لیکن جب انگریزوں نے کانگریس کے دباؤ میں آکر بنگال کی تقسیم منسوخ کر کے بنگال دوبارہ متحد کردیا اور 1937 کے عام انتخابات کے بعد ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار نہ مل سکا تو آخر کار مسلم لیگ نے 1940میں ایک علیحدہ ملک کے قیام کا مطالبہ کیا۔
برطانوی میڈیا میں تقسیم پر واویلا کے دوران ان حقائق کا کہیں ذکر نہیں ہوا۔
برصغیر کی آزادی کے موقع پر فسادات اور قتل و غارت گری کے وقت، برطانوی راج، ہندوستان میں امن و امان کا ذمے دار تھا، بنیادی طور پر یہ اس کی ذمے داری تھی کہ اقتدار کی منتقلی پر امن طور پر مکمل ہو۔ کئی ذرائع سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس زمانے میں جب فسادات کا سلسلہ شروع ہوا تو ہندوستان میں تعینات برطانوی فوج کو ہدایت تھی کہ وہ ان فسادات میں نہ اُلجھے اور بالکل الگ تھلگ رہے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن اس وقت وائسرائے تھے۔ انہیں علم تھا کہ کس طرح فرقہ وارانہ کشیدگی کے فسادات کی صورت اختیار کرنے کا خطرہ ہے۔ یہ ان کی ذمے داری تھی کہ وہ اس کا سد باب کرتے اس کے برعکس انہوں نے غیر معمولی بلکہ مجرمانہ عجلت سے کام لیا۔ برطانوی وزیر اعظم کلمنٹ ایٹلی نے برصغیر کی آزادی کی تاریخ جون 1948مقرر کی تھی لیکن ماونٹ بیٹن نے ہندوستان میں وائسرائے کا عہدہ سنبھالنے کے دو ماہ بعد ہی جون 1947میں اقتدار ہندوستان اور پاکستان کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس عجلت کی انہوں نے کوئی مناسب وجہ نہیں بتائی۔ ان کا جواز یہ تھا کہ ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ اگر واقعی یہ خطرہ تھا تو وائسرائے کی حیثیت سے اس کے سد باب کی تدابیر کرنی چاہئیں تھیں۔ 3جون 1947 میں تقسیم کا اعلان کرنے کے بعد انتقال اقتدار کے معاملے میں بھی ماونٹ بیٹن نے عجلت سے کام لیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ قائد اعظم کو مہلت نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ نئے ملک کے سیاسی اور اقتصادی نظام کے بارے میں منصوبہ بنا سکیں۔
قیام پاکستان کے بعد لارڈ ماونٹ بیٹن پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں کے مشترکہ گورنر جنرل بننا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کا ذہن ٹٹولنے کے لیے انہوں نے ایک ملاقات میں قائد اعظم سے یہ سوال کیا کہ پاکستان میں گورنر جنرل کون ہوگا؟ قائد اعظم نے لارڈ ماونٹ بیٹن کی خواہش بھانپ گئے، فوراً انہوں نے کہا کہ میں گورنر جنرل ہوں گا۔ اس پر لارڈ ماونٹ بیٹن نے کہا کہ لیکن پاکستان تو پارلیمانی جمہویہ ہوگا اس میں وزیر اعظم سب سے مقتدر شخص ہوتا ہے، قائد اعظم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے پاکستان میں نہیں ( India The Transfer of Power Papers 1942-7)
مشترکہ گورنر جنرل بننے کی خواہش پوری نہ ہونے کے بعد ماونٹ بیٹن نے پاکستان کے خلاف ایسی کارروائیاں کیں جنہیں انتقام کے زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدوں کے تعین کے لیے ریڈ کلف کو مقرر کیا جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی ہندوستان دیکھا تک نہیں تھا۔ ریڈ کلف نے ماونٹ بیٹن کی ہدایات کے مطابق نقشے پر سرحدوں کی لکیر کھینچ دی، سر ظفر اللہ خان نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ لاہور میں مسلم لیگ کے وکیلوں نے انہیں بتایا تھا کہ ریڈ کلف کے کمرے میں ایسے نقشے آویزاں تھے جن پر پہلے سے سرحدیں کھچی ہوئی تھیں۔ اس بارے میں احتجاج کیا گیا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ریڈکلف کے باونڈری ایوارڈ میں حیرت انگیز طور پر پنجاب میں مسلم اکثریت والے ضلع گرداس پور کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا۔ گرداس پور کے راستہ ہی ہندوستان کا کشمیر کے ساتھ واحد رابطہ تھا۔ یوں ہندوستان کو جموں و کشمیر میں راستہ دے کر پاکستان پر ایسا کاری زخم لگایا گیا جو اب تک رس رہا ہے۔
ماونٹ بیٹن نے ریڈ کلف ایوارڈ کے اعلان کے سلسلے میں بھی عجیب و غریب رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ 14اگست کو پاکستان کو اقتدار کی منتقلی کی تقریب کے لیے جب وہ کراچی پہنچے تھے تو ایوارڈ ان کی جیب میں تھا ۔ ان کا ارادہ دونوں ملکوں کو اقتدار کی منتقلی کے بعد ایوارڈ کا اعلان کرنا تھا تاکہ دونوں ملکوں کو اسے تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہے۔ باونڈری ایوارڈ کا اعلان 17اگست کو کیا گیا۔ اس عرصے میں چار دن تک دونوں طرف عوام کو علم نہیں تھا کہ وہ آیا ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں رہیں گے۔ یہ بھی سخت تعجب کی بات ہے کہ ریڈ کلف، باونڈری ایوارڈ کے اعلان سے پہلے ہی 15اگست کو برطانیہ واپس چلے گئے جہاں انہوں نے ایوارڈ سے متعلق تمام کاغذات نذر آتش کر دیے اور کوئی انٹرویو دینے سے صاف انکار کردیا۔
آزادی کے بعد دس ماہ تک لارڈ ماونٹ بیٹن آزاد ہندوستان کے گورنر جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ یہ پراسرار اور تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو لارڈ ماونٹ بیٹن برطانیہ واپس جانے کے لیے بے تاب تھے لیکن انتقال اقتدار کے بعد انہوں نے کوئی عجلت نہیں دکھائی۔ ان کے ہندوستان کے گورنر جنرل کے عہدے پر رہنا پاکستان کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہوا اور غالباً اس عہدے پر برقرار رہنے کا مقصد بھی یہ تھا۔
یہ حقیقت بھی برطانیہ کے میڈیا میں تقسیم کے بارے میں محض فسادات، بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری، دس لاکھ افراد کے لقمہ اجل بننے اور ایک کروڑ عوام کی انتقال آبادی کی دکھ بھری داستانوں کے پیچھے چھپ گئی ہے تاکہ برطانوی راج پر کوئی حرف نہ آئے اور اس پر کوئی داغ نہ لگے۔