مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تئیں یا خوشامدیوں کی بدولت اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا چپہ چپہ ا ن کی ذاتی جاگیر ہے۔ اس کے تمام ادارے ان کے غلام ہیں جن کے سربراہوں کا واحد فرض خمیدہ کمر کے ساتھ میاں جی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہنا ہے۔ ہو سکتا ہے میاں جی کے چاپلوس انہیں یہ بھی یقین دلا چکے ہوں کہ سوائے ان کے ہر شے کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے لہٰذا پاکستان پر تاقیامت حکمرانی کرنا ان کا آسمانی حق ہے۔ ان کے بعد یہ حق ان کی بیٹی مریم کا ہے۔ اس کے بعد ان کے نواسے یا نواسیوں کا۔ پھر ان کے بچوں کا۔ اس طرح یہ سلسلہ ابد تک چلتے رہنا چاہیے۔ کس کی مجال جو اس حق کو چیلنج کر سکے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف اسلام، ملک، جمہوریت بلکہ پورے نظام کائنات کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں!
کیا کیا جتن نہیں کیے میاں جی آلِ شریف کے لیے۔ کبھی عدالت عظمیٰ پر کرائے کے غنڈے چھڑوا دیے۔ بادشاہت کو دوام بخشنے کے لیے امیر المومنین بننے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے راتوں رات شریعت بل لے آئے۔ عدالت عظمیٰ کو پچھاڑنے کے بعد ان کے عزم کو ایسا حوصلہ ملا کہ انہوں نے ریاست کے سب سے طاقت ور بندے یعنی سپہ سالار کو گھر بھجوا دیا۔ ایسا دبنگ سربراہ کہیں ملتا ہے پاکستان کی تاریخ میں؟ گریسی کو فارغ کرنے کی جرات تو اپنے جناح صاحب بھی نہ کر سکے۔!
سپہ سالار کو فارغ کرنے کے بعد یہ اپنے آپ کو ثانی فرعون سمجھنے لگے۔ اگر مشرف کو بھی فارغ کر نے میں کامیاب ہو جاتے تو ممکن ہے خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتے۔ مشرف ان کے لیے موسیٰ ثابت ہوا۔ مگر ماضی سے سبق سیکھنا ان کی سرشت میں نہیں۔ اس بار بھی وہ ہی پنگے۔ دو سپہ سالار اپنی مرضی سے منتخب کیے۔ دونوں سے نہیں بنی کیوں کہ دونوں آرمی چیف تھے عابد شیر علی نہیں! پھر پاناما کیس شروع ہو گیا۔ کتنے پینترے بدلے انہوں نے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ گھڑے مگر سب پکڑے گئے۔ بے شرمی کی انتہا کہ قوم کو یہ کہہ کر بے وقوف بنایا جا رہا ہے کہ میاں جی پر تو بدعنوانی ثابت ہوئی ہی نہیں تو پھر کیوں نکالا؟ آنکھ کے اندھے کو بھی یہ سمجھنا چنداں دشوار نہیں کہ بدعنوانی کے الزامات سے بری نہیں ہوئے۔ وہ تو ابھی شروع ہونے ہیں۔ اور اکیلے ان کے خلاف نہیں۔ دخترِ نیک اختر، دونوں ولی عہد، ایک عدد گھر داماد اور سسر بھی شامل ہیں۔ نا اہل تو ایک اور جرم ثابت ہونے پر ہوئے ہیں۔ یہ جو وکلا کی فوج پالی ہوئی ہے کیا بتایا نہیں انہوں نے کہ کیوں نکالا اور کیا ہونے والا ہے آگے!
تخت چلا گیا مگر فرعونیت نہیں گئی۔ معصوم بچے کو گاڑی تلے روند کر شہیدِ جمہوریت قرار دے دیا۔ کیا بد دعاہو گی جو نہ نکلی ہو گی اس بچے کی ماں کے کلیجے سے۔ ذرہ برابر بھی انسانیت ہوتی تو خود ہسپتال لے کر جاتے اپنی گود میں، شرمندہ ہوتے اور معافی مانگتے بچے کے والدین سے۔ مگر اقتدار کی ہوس نے انہیں اندھا، بہرا اور گونگا کر دیا ہے۔ انہیں جمہوریت صرف اس وقت یاد آتی ہے جب ان کے اپنے اقتدار کا سورج ڈوب چکا ہوتا ہے۔ اقتدار میں یہ جمہوریت کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ کس جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم سال سال بھر پارلیمنٹ میں ہی نہ آئے؟ موقع پرستی میں ان کا جواب نہیں۔ اب انہیں رضا ربانی کی باتیں خوب صورت لگ رہی ہیں۔ کسی زمانے میں انہیں دستور کی شق ۶۲ اور ۶۳ سے عشق تھا۔ ان کی نظر میں یہ امیر المومنین تھے اور باقی سب مہا پاپی! ۶۲ اور ۶۳ کے مین ہول انہوں نے زرداری کے لیے کھلے چھوڑے ہوئے تھے کہ خود ہی گر گئے۔
میاں جی کون کہتا ہے آپ کو نکال دیا۔ مرکز میں آپ کی حکومت، پنجاب میں آپ کی حکومت، بلوچستان میں آپ کی حکومت! سازش کرنے والے کا نام کھل کر لیں اگر اخلاقی جرات ہے تو۔ سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ آپ ہی نون لیگ ہیں۔ آپ ہی پاکستان ہیں۔ آپ ہی جمہوریت ہیں۔ آپ ہی حقیقت ہیں۔ پوری کائنات میں آپ جیسا کوئی نہیں۔ آپ کو تکلیف اس بات کی ہے کہ کیوں قدرت ہر بار کوئی موسیٰ آپ کے مد مقابل کھڑا کر دیتی ہے جب جب آپ میں فرعون بننے کا خناس سماتا ہے؟ عوام کے بچوں کو شہید بنانے کی مہم چھوڑیں اور اللہ سے ڈریں!