محمد مظفر الحق فاروقی
آج 13 اگست ہے (جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں) آج ہی عمران خان اور شیخ رشید احمد صاحب کا راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک مشترکہ جلسہ ہے۔ اس جلسے کی میرے نزدیک جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ یہاں ہیلی کاپٹر سے ہزاروں کی تعداد میں ایسے پمفلٹس گرائے جائیں گے جن میں معزول اور نااہل کیے جانے والے نواز شریف اور عوام کو بتایا جائے گا۔ نواز شریف صاحب کو ایوانِ وزیراعظم کے پرشکوہ محل سے جاتی امرا کے پُرتعیش اور شاندار ’’گھر‘‘ کی طرف کیوں بھیجا گیا۔ ظاہر ہے سارے الزامات لکھے ہوں گے جو قوم اگلے دن کے اخبارات میں پڑھے گی۔
میرے کالم کا عنوان بھی آپ کو مذکورہ ’’آسمان‘‘ سے ’’زمین‘‘ کے باسیوں پر گرائے جانے والے مذکورہ پمفلٹس کے مواد سے ملتا جلتا لگے گا چوں کہ میں نے ابھی تک اس پرچہ کو دیکھا ہے اور نہ پڑھا اس لیے اُمید ہے کہ جو بات میں لکھنے جارہا ہوں وہ اس سے کسی نہ کسی طرح مختلف ضرور ہونی چاہیے۔ جب یہ شائع ہوگا 13 اگست ماضی کا حصہ بن چکی ہوگی۔ سابق وزیراعظم ن۔ ش۔ صاحب مری سے لے کر جاتی امرا لاہور کے چار روزہ تھکا دینے والے سفر کے بعد اب اپنے اسی گھر میں واپس آچکے ہیں جہاں ان کو بھیجا گیا تھا۔ اب وہ دوسرے محل میں ہیں۔ راستہ بھر وہ تواتر سے یہ بات کہتے رہے کہ لوگو آخر یہ تو بتاؤ میرا قصور کیا ہے؟ میرا قصور کیا ہے کہ عنوان پر یا عوام الناس کو سیدھا سمجھ کر ان کو گمراہ کرنے کے انداز پر مجھے اس وقت اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
مُکر جانے کا قاتل نے نرالا ڈھب نکالا ہے
سبھوں سے پوچھتا ہے کس نے اِس کو مار ڈالا ہے
یعنی: ایک شخص نے ایک بے گناہ کو قتل کردیا۔ جب ایک مجمع لاش کے پاس جمع ہوا تو قاتل ان لوگوں کے درمیان آکھڑا ہوا اور لوگوں سے پوچھنے لگا۔ اس قتل پر بہت افسوس ہوا یہ تو مجھے بتاؤ اس کو کس نے قتل کیا ہے۔ سیدھے سادھے لوگ اس معصومانہ شکل کے شخص کو دیکھ کر یہ سمجھتے رہے کہ قاتل کوئی اور ہے ورنہ یہ شخص کیوں پوچھتا کہ قاتل کون ہے۔
بس یہی حالت اپنے معزول اور نااہل کیے جانے والے نواز شریف صاحب کی ہے جو بھرے مجمعوں میں بار بار یہ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ بتایا جائے کہ عدالت عظمیٰ نے مجھے نااہل کیوں کردیا۔ میں نے تو کوئی کرپشن نہیں کی، میں نے اپنے دور حکومت میں کون سی کک بیک لی، میری بیوی کلثوم نواز اور میری بیٹی مریم نواز نے کسی ذات یا ادارے سے ہیرے کا ہار وصول نہیں کیا۔ کیا کسی کی طرف سے مسٹر ٹن پرسنٹ کا خطاب دیا گیا۔ اور کیا مجھے کبھی کسی نے رشوت لیتے یا دیتے ہوئے پکڑا (اب یہ عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی جو پمفلٹ لائی ہے اس میں ان الزامات سے ان کو بری نہ کیا گیا ہو جن کا ذکر میں نے ’’تعریفاً‘‘ اس وقت کردیا ہے)۔ نواز شریف صاحب تواتر سے اس بات کا ذِکر کر رہے ہوتے ہیں کہ مجھے اس لیے برطرف کیا گیا کہ میں اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لیتا تھا پھر وہ سادہ لوح عوام سے خود ہی سوال کرتے ہیں کہ بھلا بتاؤ کیا کوئی باپ اپنے بیٹے سے تنخواہ لیتا ہے۔ سادہ لوح عوام میں ایسا کوئی نہیں ہوتا جو ان سے یہ سوال کرنے کی جرأت کرسکے کہ اچھا آپ یہ بتائیں کہ کیا کوئی باپ اپنے بیٹے کا نوکر یا ملازم ہوتا ہے۔ پتا نہیں یہ آپ باپ بیٹے کا کیا کاروبار تھا جس نے سادہ لوح قوم کو تنخواہ اور نوکری کے چکر میں ڈال کر رکھ دیا۔ ہم تو بحیثیت ایک قوم نوکری اور تنخواہ کا معاملہ جانتے بھی نہ تھے آپ ہی پچاس بار اس بات کا ذکر کر کرکے ہمارے علم میں لائے۔
میں بتاتا ہوں آپ کا قصور کیا ہے۔ آپ کے مخالفین آپ کو ایک نہیں دس قصور بتائیں گے۔ آپ کا قصور یہ ہے کہ بے پناہ دولت نے آپ کو کبریائی اور تکبر میں مبتلا کردیا تھا۔ آپ اپنے عہدے اور دولت کے نشے میں آکر زمین پر قدم نہیں رکھ پاتے تھے۔ 35-30 سال کے طویل عرصے پر محیط آپ کی حکمرانی رہی جس نے آپ کی دولت میں دن دونی رات چوگنی ترقی کی منزلوں کو چوما۔ آپ کے دو بچے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں ارب پتی بن گئے جب کہ آپ کی قوم کے بچے ڈگریاں ہاتھ میں پکڑے دس پندرہ ہزار روپے ماہانہ کی نوکری کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ آپ اپنا اور اپنے خاندان کا علاج انگلینڈ اور امریکا کے ڈاکٹروں سے کراتے رہے اور قوم کے غریب ہسپتالوں کے فرش اور سیڑھیوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہے۔ لوگوں نے ایسا بھی دلخراش منظر دیکھا کہ ہسپتال میں بستر نہ تھا کہ مریض کو وقتی طور پر ایک ایسے بستر پر لٹا دیا گیا جس پر ایک لاش پہلے سے پڑی ہوئی تھی۔ اور نواز شریف آپ اور آپ کے بھائی شہباز شریف اپنے علاج کے لیے بوئنگ طیارے میں بیٹھ کر برطانیہ میں اپنا علاج اور معائنہ کراتے رہے۔
نواز شریف صاحب آپ تقریباً چھ ماہ پہلے لندن گئے یہ سرکاری دورہ نہیں تھا۔ آپ کے دو بیٹے وہاں چھ ارب روپے کے عالیشان محل نما فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ایک باپ کی حیثیت سے آپ جب چاہیں جائیں یہ آپ کا حق ہے۔ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ وہاں لندن کے ایک مہنگے ترین شاپنگ پلازہ سے آپ نے دس کروڑ روپے کی ایک گھڑی خریدی۔ یہ گھڑی شاید کوئی دیو مالائی گھڑی تھی جو وقت، تاریخ، دن اور سن بتانے کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت، موسم کا حال اور قسمت کی دیوی مہربان ہے یا ناراض یہ بھی بتاتی تھی، مگر افسوس کسی فنی خرابی کی وجہ سے وہ گھڑی کلائی پر بندھی کی بندھی رہ گئی اور یہ نہ بتاسکی کہ چار اگست جمعہ کے دن12 بجے آپ کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے ’’شاندار‘‘ اور ’’تاریخی‘‘ اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔
نواز شریف صاحب آپ کا قصور یہ ہے کہ آپ ایک فضول خرچ انسان اور حکمران تھے اور آج بھی ہیں۔ دس کروڑ روپے کی گھڑی ایک مثال ہے۔ وقت تو 10 ہزار روپے کی گھڑی بھی بتاسکتی ہے۔ آپ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں سوال ہوگا، میں نے تم کو بے حد مال و دولت اس لیے دی تھی کہ تم قارون بن جاؤ، فرعون بن جاؤ، جس نے کہا تھا میں بڑا ہوں۔ آپ نے یہ تو نہیں کہا کہ میں بڑا ہوں مگر آپ کا رہن سہن اور عیش و عشرت کی زندگی آپ کی بڑائی کی عکاس ضرور تھی۔ نواز شریف صاحب۔ اگر آپ ایک خوشحال ملک اور قوم کے وزیراعظم ہوتے تو آپ کی شاہانہ طرز زندگی پر کوئی کیوں اُنگلی اُٹھاتا؟۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپ، آپ کے خاندان اور آپ کے جاتی امرا کے پرشکوہ محل کی حفاظت کے لیے ڈھائی ہزار سپاہی پہرہ دے رہے ہوتے ہیں اور غریب آدمی بم دھماکوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ جاتی امرا میں آپ نے 50 لاکھ روپے کے پرندے اور جانور (نایاب نسل کے ہی ہوں گے) پالے ہوئے ہیں، آپ کے کھانوں میں تیتر، بٹیر اور ہرن کا گوشت ہوا کرتا ہے اور غریب کا بچہ یہ نہیں جانتا کہ سیب، انڈے اور بکرے کے گوشت کا مزہ کیا ہوتا ہے۔
محترم نواز شریف صاحب۔ حدیث میں آتا ہے جس شخص میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ آپ عاجزی اور انکساری کا دامن چھوڑ کر بڑائی اور تکبر کی وادیوں میں بھٹک گئے۔ دولت کی چکا چوندھ نے آپ کی بینائی کو سلب کرلیا۔ سب کچھ تو اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، یہ سب اللہ کی ناراضی والے راستے تھے جس کی وجہ سے کل کا شیر آج وقت کا قیدی بن گیا۔
علامہ اقبال نے کہا تھا
آ تجھکو بتاؤں میں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
نواز شریف صاحب آپ کی خدمت میں کچھ اس طرح کا شعر ہے۔
آ تجھکو بتاؤں میں تیرا قصور کیا ہے
عیش و عشرت اول عوام کی خدمت آخر
اور یہی ہے آپ کا قصور اور نکالے جانے کی وجہ