ہائے میاں محمد نواز شریف

162

حبیب الرحمن
آخری حصہ
دوسری مرتبہ 17 فروری 1997ء کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہیں وزیراعظم پاکستان منتخب کیا گیا۔ اکتوبر 1999ء میں نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹاکر نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کی کوشش کی جس کے بعد فوجی بغاوت ہوئی اور فوجی سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف اقتدار پر فائز ہوئے۔ فوج کی طرف سے ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان پر مقدمہ چلا۔ جو ’’طیارہ سازش کیس‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں اغواء اور قتل کے الزامات شامل تھے۔ فوج کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد نواز شریف سعودی عرب چلے گئے۔ 2006ء میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوجی حکومت کے خاتمہ کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست 2007ء کو عدالت عظمیٰ نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازدت دیدی۔ 2013کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اس بناء پر وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے اور پھر 28 جولائی 2017 کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے انہیں نااہل قرار دیا عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں نیب کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ چھے ہفتے کے اندر نواز شریف اور ان کے بچوں مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی مہیا مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرے اور چھ ماہ میں ان پر کارروائی مکمل کی جائے۔ عدالت نے نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز کے خلاف چار جب کہ مریم نواز ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ایک ایک معاملے میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے سبک دوشی کے بعد ان کی قیادت میں میٹنگ منعقد کی گئی جس میں وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کو 45روز کے لیے عبوری وزیراعظم پاکستان بنایا گیا۔ لیکن شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی کے معاہدے میں بے ضابطگیوں کا سامنا ہے اور قومی احتساب بیورو میں ایک انکوائری چل رہی ہے جو ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے 1988ء میں سیاست میں قدم رکھا اور قومی اسمبلی پاکستان کے لیے 6مرتبہ منتخب ہوئے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ان دنوں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، مصر کی جانب سے قطر کو دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کرکے اس سے تعلقات منقطع کرلیے گئے اور اس پر مکمل پابندیاں عائد کردی گئیں۔ قطر بحران کے موقع پر ترکی اور ایران اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے کشیدہ حالات پر پاکستان کی غیر جانبدارانہ پالیسی کئی ایک شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 28 جولائی کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر ان کے بوجھ کو ہلکا کیا ہے کیوں کہ نواز شریف پر سعودی عرب کے کئی ایک احسانات ہیں۔ وہ سعودی عرب میں جلا وطنی کی زندگی گزار چکے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان سے بہتر تعلقات بنائے رکھنے کا خواہش مندہی نہیں بلکہ فوجی تعاون کے لیے بھی پاکستان پر بھروسا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کے اتحاد نے جو فوجی اتحاد قائم کیا ہے اس کے سربراہ سابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو بنایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر خاموشی یا غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کیے جانے کی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے لیے لمحہ فکر بن گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات میاں نواز شریف کے لیے خوش آئند ثابت ہوسکتے ہیں کیوں کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی رو سے آئندہ چھ ماہ تک دیگر الزامات کا فیصلہ آئے گا ہو سکتا ہے کہ وہ نواز شریف کے حق میں ہو اور اس وقت تک ممکن ہے کہ خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری پیدا ہوجائے۔ موجودہ حالات میں نئے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے کاندھوں پر بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے جسے وہ سنبھال پاتے ہیں یانہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔