کشمیریوں کا یوم سیاہ

192
Edarti LOH
مقبوضہ کشمیر کے شہریوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے کو تیا رنہیں اور یہ کہ مقبوضہ وادی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے ۔ چنانچہ15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر اس سال بھی مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی گئی اور یوم سیاہ منایا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں کشمیری آباد ہیں انہوں نے یوم سیاہ منایا اور بھارت کے خلاف احتجاج کیا ۔ سخت کرفیو کے باوجود کشمیریوں نے سیاہ پرچم لہرائے اور بھارت مخالف نعرے بلند کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ کشمیریوں نے اقوام متحدہ کی قرار داد او ربھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا وعدہ پورا ہونے پر طویل عرصے تک انتظار کیا لیکن برہمن راج حسب عادت و روایت ٹال مٹول سے کام لیتا رہا ۔ مایوس ہو کر کشمیریوں نے1989ء سے مسلح جدو جہد شروع کی جو آج تک جاری ہے ۔ اس عرصے میں لا تعداد کشمیریوں نے اپنی جانیں قربان کیں ۔ ان کے گھر بار لوٹ لیے گئے اور قابض بھارتی فوجیوں نے باعصمت خواتین کی بے حرمتی سے بھی گریز نہیں کیا ۔ بھارت نے کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے کے لیے مقبوضہ وادی میں8لاکھ خونخوار فوجی تعینات کررکھے ہیں اور اس پر یہ دعویٰ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر8لاکھ فوجی کیوں تعینات کر رکھے ہیں جنہوں نے چھرّوں والی بندوقیں استعمال کر کے متعدد کشمیری جوانوں کی بصارت چھین لی لیکن کشمیریوں کی بصیرت چھیننے میں کامیابی نہیں ہو سکی ۔ بھارت کی کئی ریاستوں میں علاحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن کہیں بھی اس بہیمانہ طریقے سے علاحدگی پسندوں کو نہیں کچلا جا رہا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیری حریت پسند مسلمان ہیں اور پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد میں حق خود ارادیت کے تحت کشمیریوں کو دو ہی اختیار دیے گئے ہیں کہ بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک سے الحاق کیا جائے ۔ بقول آنجہانی پنڈت نہرو کے کہ ہمیں معلوم ہے کشمیریوں کا فیصلہ کیا ہو گا لیکن ہم انہیں ان کا حق دیں گے ۔ پنڈت جی زندگی بھر اس معاملے کو بڑی ہوشیاری سے ٹالتے رہے اور ان کی بیٹی اندرا گاندھی تو اس بات پر ناراض تھیں کہ پتا جی اقوام متحدہ کیوں گئے ۔ کشمیریوں نے ہر طرح سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنا حق لے کر رہیں گے ۔ بھارت کے یوم آزادی پر انتہا پسند نریندرمودی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مسئلہ کشمیر گولی یا گالی سے نہیں ، گلے لگانے سے حل ہو گا ۔‘‘ اس پر کچھ خوش فہموں نے یہ گمان کیا ہے کہ نریندر مودی نے گھٹنے ٹیک دیے ۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ مسئلہ کشمیر کو برسوں سے گولی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ بھارتی یوم آزادی پر بھی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کم نہیں ہوئے ۔متعدد افراد گرفتار کر لیے گئے ۔ کشمیری خاتون مشعال ملک نے مودی کے دعوے پر کہا ہے کہ مودی موت کا فرشتہ بن کر کشمیریوں کو گلے لگا رہا ہے ۔ یہ کہاوت تو آج بھی ہندو انتہا پسندوں پر پوری ا ترتی ہے کہ ’’ بغل میں چھری ، منہ میں رام رام ‘‘۔ جہاں تک گلے لگانے کا تعلق ہے تو کشمیر میں کیا پورے بھار ت میں مسلمانوں کے گلے کاٹے جار ہے ہیں اور گؤرکشا کے نام پر مسلمانوں کو ذبح کیا جا رہا ہے ۔ اس پر بھی کہا گیا ہے کہ مذہب کے نام پر تشدد قبول نہیں ۔ بھارتی مسلمانوں پر تشدد مذہب ہی کے نام پر تو ہو رہا ہے ، پورے بھارت میں مسلمانوں اور دِلتوں پر ہونے والے حملوں پر بھارتی مسلح افواج کے ریٹائرڈ فوجیوں تک نے احتجاج کیا ہے اور اس کے خلاف114ریٹائرڈ فوجیوں نے نریندر مودی کو کھلا خط لکھا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ نریندر مودی کس طرح گلے لگاتے ہیں ۔ اس سے پہلے وہ اسکولوں اور مدارس میں شرکیہ ترانا پڑھنے کی پابندی تو اٹھائیں ۔