عظیم قربانی

324

حافظ محمد سعید
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت ورہنمائی کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث فرمائے، ان میں سے ہر نبی کی اپنی فضیلت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضلیت یہ کہ وہ خلیل اللہ (اللہ کے دوست) اور ابو الاانبیاء (انبیاء کے باپ) ہیں۔ قربانی انہی کی سنت ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قربانی کتنا عظیم عمل ہے اور اللہ کو یہ عمل کتنا محبوب ہے۔ عمل جتنا عظیم ہو، اس کا اجر بھی اتنا ہی عظیم و جلیل ہوتا ہے۔ لفظ قربانی قرب سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب و تعلق حاصل ہو۔ عیدالاضحیٰ کے دن جانور کو لٹانا، اس کے گلے پر چھری چلانا، اسے ذبح کرنا۔۔۔ یہ سب کچھ رسماً اور عادتاً کیا جائے تو بہت آسان ہے لیکن اگر اسوہ ابراہیمی کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کے لیے انسان کو پہلے ان مراحل کو سامنے رکھنا پڑتا ہے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزرے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی، سفر وحضر۔۔۔ روز وشب۔۔۔ بچپن وجوانی، بڑھاپا، رشتے و ناطے، بیوی بچے اور والدین سے تعلق و محبت۔۔۔ مسلسل قربانیوں سے عبارت ہے۔ آبائی وطن، گھر اور ماں باپ، انسان کے لیے محبتوں کا گہوارہ اور امیدوں کا سہارا ہوتے ہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی خاطر یہ سب رشتے، ناطے، تعلق چھوڑے اور توڑے۔ آبائی وطن چھوڑ کر مصر پہنچے تو وہاں بھی قربانیوں کی بے مثال داستانیں رقم کیں۔ آگ میں ڈالا گیا تو وہ اللہ کے حکم سے گل و گلزار ہوگئی۔ مصر سے فلسطین پہنچے تو لبوں پر یہ دعا تھی ’’اے میرے رب! مجھے نیک بیٹا دے دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے دعا کو شرفِ قبولیت بخشا۔ جب خوبصورت بیٹا ملاتو اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک 86 برس تھی۔ اللہ کے خلیل مسلسل قربانیوں، سفر اور آزائشوں سے گزرتے گزرتے بوڑھے ہو چکے اور کمر جھک چکی تھی۔ یہ عمر آرام کرنے، بیوی بچوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور خدمت کروانے کی ہوتی ہے۔ اس بڑھاپے میں رب جلیِل اپنے خلیل کو حکم کرتے ہیں کہ اپنی ہمدرد و مونس اہلیہ اور معصوم لخت جگر کو خود سے جدا کر کے ایک بے آب و گیاہ وادی۔۔۔ مکہ، جہاں اس وقت خورونوش، عام ضروریات زندگی اور پانی کا نام ونشان تک نہ تھا، وہاں چھوڑ دو۔ وفا واطاعت کے پیکر خلیل اللہ علیہ السلام بلاتأمل اپنے بیٹے اور اہلیہ کو وہاں جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ جب خلیل علیہ السلام وادی غیر ذی ذرع مکہ میں اپنے بیوی بچے کو چھوڑ کر واپس فلسطین روانہ ہونے لگے تو سیدہ ہاجرہ آگے بڑھ کر اونٹ کی مہار پکڑ لیتی اور یوں گویا ہوتی ہیں:
’’آپ کہاں جانے لگے۔۔۔؟‘‘
سیدنا ابراہیمؑ خاموش ہیں، زبان پر کوئی بات نہیں، آخر سیدہ ہاجرہؑ پوچھتی ہیں:
’’آپ ہمیں کس کے سپرد کر کے جا رہے ہیں۔۔۔؟‘‘
جواب ملا ’’اللہ کے سپرد۔‘‘ سیدہ ہاجرہ سمجھ گئیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ پس وہ بولیں:
’’تب آپ تشریف لے جائیے اللہ ہماری حفاظت کرے گا اور ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
بیوی بچے کو خود سے جدا کر دینا اور بیابان میں چھوڑ دینا بہت بڑی قربانی تھی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اسی طرح آزماتا اور آزمائشوں پر پورا اترنے والوں کو انعامات سے نوازتا ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام مکہ سے فلسطین روانہ ہونے لگے تو آپ تنِ تنہا تھے۔ بیوی بچے آپ سے جدا تھے مگر آپ کے لبو ں پر یہ دعائیہ کلمات تھے’’ اے میرے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بے آب وگیاہ میدان میں لابسایا ہے جو تیرے عزت والے گھر کے پاس ہے (تاکہ) اے میرے رب یہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور پھلوں کی پیداوار سے ان کو رزق دے تاکہ وہ شکر گزاری کریں۔‘‘ ادھر سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کے پاس موجود پانی اور کھجوریں ختم ہوگئیں۔ لخت جگر اسماعیل علیہ السلام بھوک اور پیاس کی وجہ سے بلکنے لگے تو اماں ہاجرہ تڑپ اٹھیں۔ صفا ومروہ کی پہاڑیوں پر چڑھ کر بے تاب اِدھر اَدھر دوڑنے لگیں، اللہ کو اپنی نیک بندی کا پانی کی تلاش میں دوڑنا اتنا پسند آیا کہ اس عمل کو ہمیشہ کے لیے حج وعمرے کا حصہ بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ماں بیٹے کے لیے پانی کا چشمہ جاری کر دیا جو آج تک جاری ہے۔ جہاں پانی ہو وہاں آبادی ہو جاتی ہے چنانچہ ایک قبیلے کے کچھ لوگ زم زم کے چشمے کی وجہ سے وہاں آباد ہوگئے۔
بیوی اور بیٹے کی جدائی کچھ کم قربانی نہ تھی لیکن خلیل علیہ السلام کی قربانیوں کا سفر ابھی جاری تھا۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام ابھی چلنے پھرنے، سمجھنے اور بولنے کے قابل ہوئے ہی تھے کہ ایک دن ابراہیم علیہ السلام رب کا ایک اور حکم لے کر آئے اور کہا ’’اے فرزند! اللہ نے تمہاری قربانی مانگی ہے اور حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر دوں بتاؤ تمہاری کیا رضا ومنشا ہے۔۔۔؟‘‘ اس منظر کو ذرا تصور میں لائیے کہ جب لمبی جدائی کے بعد خونی رشتوں کا ملاپ ہو تو باپ اپنے بیٹے کے لیے کس قدر بے تاب و بے قرار ہوتا ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی لخت جگر کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا لیکن یہاں تو معاملہ جدائی کا نہیں بلکہ بالکل ہی مختلف تھا کہ بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کردو۔۔۔ فرمانبردار بیٹے نے بلاتامل جواب دیا ’’اباجان! اللہ کے حکم کو پورا کیجیے مجھے اللہ کی راہ میں قربان کیجیے، آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ دونوں باپ بیٹا پیکرِتسلیم ورضا بن کر قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ باپ نے بیٹے کو پہلو کے بل لٹا لیا اور چھری چلانے کے لیے گلے پر رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو آواز دے کر کہا بے شک تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ اللہ نے اسماعیل علیہ السلام کو محفوظ رکھا۔ ان کی جگہ جانور کی قربانی کروا دی اور اس قربانی کو اپنے خلیل کی سنت بنا کر مسلمانوں کے لیے جاری کر دیا تاکہ اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار وقربانی کا ابراہیمی معیار قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے قائم ہو جائے اور مسلمانوں سے ہمیشہ اس معیار کی قربانی لی جائے۔