پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے جتنے بھی جن بوتل سے نکالے واپس بوتل میں بند نہ ہو سکے۔ بہت سوں کو واپس بوتل میں بند کرنے کی کوشش اور تجربات میں بھاری غلطیاں بھی سرزد ہوتی رہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بوتل کے جن ثابت ہونے والے یہ کردار ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت برآمد کیے جاتے رہے اور ہر تخلیق اور فخریہ پیشکش کے پیچھے ضرورت اور ایجاد کی ایک طویل کہانی رہی ہے۔ جنہیں آدم بو کرتے ہوئے دوسرے ناپسندیدہ کرداروں کو چاٹ جانا تھا وہ تھوڑی دیر بعد اسٹیبلشمنٹ کو ہی کاٹ کھانے کو دوڑتے رہے۔ اس بے بسی کے کیا کہنے کہ جس میں آپ اپنی ہی تراشیدہ طاقت سے خوف محسو س کرکے کچھ نئے تجربات میں جُت جاتے ہوں۔ اسی کی دہائی کی ایک ایسی فخریہ پیشکش کا نام الطاف حسین تھا۔ جن کا سیاسی جنم خالص نظریہ ضرورت کے باعث ہوا۔ وہ نظریہ یہ تھا کہ شہری سندھ میں دینی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی اور دیہی سندھ کی جماعت پیپلزپارٹی کو سبق سکھانا اور کچھ حدود کے اندر رکھنا، سندھی قوم پرستوں کے مقابل مہاجر قوم پرستی کو ڈیٹرنس کے طور پر تیار کرنا۔ یہ جن ایک بار بوتل سے نکل گیا تو دوبارہ اسے دہائیوں تک بوتل میں بند نہ کیا جا سکا۔ چند برس میں جو گانٹھ ہاتھوں سے دی گئی بقیہ مدت اسے دانتوں سے کھولنے میں گزر گئی۔ 1988 کے انتخابات میں اسی طاقت نے اپنا وجود کچھ اس طرح منوایا کہ کھمبوں کے ہاتھوں سیاست کے بڑے برج اور معتبر اور معروف کردار ہارتے چلے گئے۔ ان میں وہ بھی تھے جنہیں قومی سطح پر سیاست کی آبرو سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد تو اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین کی نازبرداریوں میں جُت کر رہ گئی۔ الطاف حسین روٹھ کر لندن جا بیٹھے تو ان کا آستانہ وہاں بھی مرجع سیاست وخلائق بن کر رہ گیا۔ وفود تیار ہو کر انہیں بہلانے، پھسلانے، منانے کے لیے خصوصی طور پر لندن جاتے رہے۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے کے مصداق ان کی طاقت کے کسی غلط راہ پر چلنے کے خوف سے اسٹیبلشمنٹ دم بخود رہی۔ اس عالم خوف زدگی میں تجربات در تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔ الطاف حسین نے گزشتہ برس اگست میں اہل کراچی اور اپنے کارکنوں کو جلاؤ گھیراؤ کی کال دے کر اپنا وہ آخری کارڈ کھیل لیا جس کے استعمال کے خوف سے اسٹیبلشمنٹ برسوں ہلکان ہوتی رہی۔ اہل کراچی نے اس کال کو قطعی اہمیت نہیں دی کیوں کہ اس سے پہلے رینجرز ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کو کنٹرول کرچکی تھی۔ اس طرح الطاف حسین نے اپنا آخری کارڈ کھیل لیا اور ریاستی ادارے اس حتمی وار کو کامیابی سے سہہ گئے۔ اب الطاف حسین کا کراچی کی سیاست پر کتنا اثر ہے؟۔ ایم کیو ایم کے کس دھڑے میں الطاف حسین کے ہمدردوں کا تناسب کیا ہے؟ ان کے احکامات اور مشاورت کتنی قابل اعتنا ہے؟ ان سوالوں سے قطع نظر اسٹیبلشمنٹ اب الطاف حسین کے خوف سے آزاد اور بے نیاز ہو چکی ہے۔
میاں نوازشریف کے سیاسی سفر پر نظر دوڑائی جائے اس کا آغاز بھی نظریہ ضرورت سے ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی سیاست زوروں پر تھی اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دوران بھی پنجاب میں بھٹو کا طوطی بولتا تھا۔ پیپلزپارٹی کی سیاست کو کنٹرول اور طاقت کا توازن قائم کرنے کے تصور کے تحت میاں نواز شریف سیاست میں اتارے گئے۔ وہ پنجاب ہی سے نہیں مشرقی پنجاب کے رہنے والے تھے اور جنرل ضیاء الحق کا تعلق بھی مشرقی پنجاب کے جالندھر شہر سے تھا۔ نوازشریف صنعت کار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک ایسے خاندان کے فرد تھے جو اپنی صنعتوں کو قومیائے جانے کی بنا پر بھٹو مخالف جذبات رکھتا تھا۔ اس طرح پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے اور ناقابل اعتبار جاگیر داروں کے مقابلے میں صنعت کاروں کو آگے لانے کے نظریہ ضرورت کے تحت سیاست میں متعارف ہونے والے میاں نوازشریف سیاست میں تھوڑی دور چلے تھے کہ وہ اپنے محسنوں کے حلقہ اثر سے نکلتے چلے گئے۔ جسے اب خود انہوں نے اپنے ’’نظریاتی‘‘ ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف کے درمیان مستقل کھچ کھچ شروع ہو کر رہ گئی۔
میاں نواز شریف کا مضبوط حلقہ اثر شمالی اور وسطی پنجاب کا علاقہ تھا اور یہی علاقہ فوج کو افرادی قوت کی صورت میں خام مال مہیا کرتا تھا۔ اس حلقے میں میاں نوازشریف کی مقبولیت سے اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ خوف محسوس کرتی رہی۔ جی ٹی روڈ کے دائیں بائیں نوازشریف کی حمایت میں عوامی سمندر کے اُمڈ پڑنے کا خوف ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کو دامن گیر رہا۔ اس خوف میں بھی کراچی کی طرح مختلف تجربات کیے جاتے رہے مگر نوازشریف کی مقبولیت کا جن دوبارہ بوتل میں بند نہ ہو سکا۔ اسٹیبلشمنٹ ان سے اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے خوف اور خار کھائے رہے۔ یہاں تک پاناما کیس میں عدالت کی طرف سے نااہل قرار دینے کے بعد جس کا انہیں کسی طور یقین نہیں تھا میاں نواز شریف نے اپنی طاقت کے مرکز جی ٹی روڈ پر اترنے کا فیصلہ کر کے وہ کارڈ کھیل لیا جس سے مدتوں اسٹیبلشمنٹ خوف زدہ ڈری اور سہمی بیٹھی تھی۔
یہ دنیا کا انوکھا انقلاب تھا جو جدید سہولتوں سے مزین بلٹ پروف کنٹینر کے اندر سے کنٹرول ہو رہا تھا اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ اور اسٹیٹ دونوں اس انقلاب کی معاونت اور سرپرستی کر رہے تھے۔ وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں، بلدیاتی ادارے، بااثر سرمایہ دار اور ارکان اسمبلی، پولیس، خفیہ ریاستی ادارے سب کسی نہ کسی شکل میں اس انوکھے انقلابی کاررواں کے راہی اور ساتھی ومعاون تھے۔
جی ٹی روڈ پر میاں نواز شریف کی اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ ممکن ہے اچھا رہا ہو مگر اسے عوام کا ریفرنڈم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس ہجوم میں معاشرے کو اتھل پتھل کرنے اور ترکی کی طرح ٹینکوں کے آگے لیٹنے کی صلاحیت کہیں نظر آئی اور یوں میاں نواز شریف نے اپنی اسٹریٹ پاور، مقبولیت اور جی ٹی روڈ پر چھا جانے اور سیل رواں بن جانے کا خوف سے اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ کے لیے آزاد کر دیا۔ وہ جی ٹی روڈ پر اتر کر اپنا آخری کارڈ نہ کھیلتے تو عین ممکن ہے سودے بازی کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوتے مگر عجلت اور ردعمل میں انہوں نے آخری کارڈ کھیل لیا ہے اور اس کے باوجود سارے منظر وہی ہیں، کاروبار حیات اسی طرح چل رہا ہے اور حالات اس شعر کی تصویر ہیں۔
ہم نے سوچا تھا کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشا نہ ہوا