تاریخ خاموش رہے گی

304

zc_Hallپاکستان کی تاریخ کا یہ بہت بڑا حادثہ اور المیہ تھا دست قاتل نے چندلمحوں میں قیامت برپا کردی تھی کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ دشمن عدلیہ کی طرف بڑھ رہا ہے اس نے اس کھیل کو بڑی مہارت اور شاطرانہ طریقے سے ترتیب دیا تھا اس نے پہلے مرحلے میں بار کونسل کے صدر بلال کاسی کو نشانہ بنایا اور اس کا اصل ہدف وکلا تھے جو بلال کاسی کی شہادت کا سن کر ایک دم سول ہسپتال کی طرف دیوانہ وار بھاگے ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ سب کے سب مقتل کی طرف جارہے ہیں اور پھر دھماکے نے ایک نہیں کئی انسانوں کی زندگی کے چراغ گل کردیے اور سول ہسپتال انسانی لاشوں سے بھرگیا ایک قیامت برپا تھی اور قانون دانوں کے جسم کے ٹکڑے ہوا میں اڑرہے تھے او رکوئی ان کی مدد کرنے والا نہ تھا خون اور دہشت سے ڈاکٹر بھاگ گئے تھے ایک لیڈی ڈاکٹر وہاں موجود تھی جو زخمی وکلا کی مدد کررہی تھی۔
قاتل نے وکلا کو نشانہ بنایا اس کے نزدیک نسل رنگ اور زبان کی تفریق نہ تھی علاقہ اور قبیلہ نہ تھا مقامی اور غیر مقامی مسئلہ نہ تھی اس کا ہدف بہت واضح تھا انتقام لینا تھا عدلیہ کو تباہ کرنا تھا۔
بلوچستان کے قابل ترین وکلا کو نشانہ بناکر حکومت کو پیغام دینا تھا کہ اپنے مارے گئے لوگوں کابدلہ لینا تھا اور حکومت کو بے بس کرنا اس کا ہدف تھا، دشمن کا پیغام بڑا واضح تھا، کالا کوٹ اس کا اصل ہدف تھا پاکستان کی تاریخ کابہت بڑا گہرا گھاؤ تھا پورا ملک سکتے میں آگیا ایسا لگا کہ چلتی گاڑی اچانک رک گئی اور نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا بلوچستان سوگ میں ڈوبا تو اس نے پورے ملک کو سوگوار کردیا یہ ایک خوفناک حملہ تھا سب کو دہشت زدہ کرگیا تھا پورا ملک اس غم میں بلوچستان کے ساتھ شریک ہوگیا تھا۔
دشمن کا ہدف بلوچستان کی عدل گاہ تھی کالا کوٹ تھا مستقبل کے ججز تھے۔ قانون دان تھے سیاستدان تھے۔ اس نے مارنے میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھالیکن میرا سوال یہ ہے کہ دشمن کا ہدف تو بہت واضح تھا لیکن کیا ہمارے دوست اور چاہنے والوں کا جو خون بہا اس کا پیغام کیا تھا کیا ہم اس کا ادراک رکھتے ہیں۔ کیا ہم ان درجنوں وکلا کے خون کو کسی پیغام میں ڈھال سکتے ہیں؟ کیا وہ خون زبان رنگ و نسل کی تقسیم اور برتری کے لیے تھا کیا اس خون میں وحدت اور ایک ہونے کا پیغام نہ تھا کیا وہ خون آپ سے دشمن کے مقابلے میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا نہ تھا‘ میرے نزدیک ان شہید وکلا کا خون تقاضہ کرتا ہے اور اس کا خون کا یہی پیغام ہوسکتا ہے کہ باز محمد کاکڑ بنو بلکہ اس سے آگے جانے کا عزم ہونا چاہیے قاہر شاہ کی طرح لگن اور محنت کرو‘ یحییٰ بختیارجیسا مقام حاصل کرنا چاہیے‘ قاضی عیسی بننا چاہیے‘ قاضی فائز عیسیٰ بننا چاہیے‘ امیرالملک کا مقام حاصل کرنا چاہیے۔ حنفی جیسا قابل وکیل بننا چاہیے‘ بلال کاسی بننا چاہیے چودھری افتخار جیسا مقام حاصل کرنا چاہیے۔
8 اگست کے بہنے والے خون کا پیغام بہت واضح ہے ہمیں اس کا ادراک کرنا ہوگا ہمیں اس خون کو ذاتی اغراض اور محدود مقاصد کی طرف جانے سے بچانا ہوگا اس خون کے پیغام کو تنگ گلی میں لے جاکر بند نہیں کرنا ہوگا اصل دشمن کو تلاش کرنا ہوگا ۔ وکلا مطالبہ کرتے ہیں، سیاستدان مطالبہ کرتے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر عملدرآمد ہونا چاہیے کون کرے گا اس پر عملدرآمد؟
پاکستانی قوم کی کس کس بے خبری کا فسانہ سنائیں ہم پاکستان کے قاتل کی نشاندہی نہیں کرسکے۔ ہم فوجی جرنیلوں کے شب وخون عدالت نہیں لگاسکے۔ دستور کو قتل کرنے والوں کا احتساب نہیں کرسکے۔ بلوچستان کو آگ اور خون میں دھکیلنے والوں کو گرفت میں نہیں لاسکے۔ پاکستان کی کسی عدالت میں غاصب جرنیلوں کو جنہوں نے حکومتوں کے تختے الٹے تھے گرفت نہیں کرسکے ‘ جنرل مشرف کے سامنے عدالت بے بس گنگ دکھائی دی اسے ریڈ کارپٹ پر احترام سے رخصت کیاگیا عدالتیں سیاستدانوں کے سامنے شیر ہیں اور جنرلوں کے سامنے۔۔۔؟ انصاف غریب کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔
کرپشن کرنے والے سیاسی رہنما بن جاتے ہیں کل کی بات ہے نواب خیربخش خان مری حیدرآباد جیل میں تھا‘ غوث بخش بزنجو حیدر آباد اور مچھ جیل‘ نواب بگٹی مچھ جیل‘ کوئٹہ جیل اور میانوالی جیل میں تھے‘ سردار عطاء اللہ مینگل حیدرآباد اور مچھ جیل میں تھا مولانا مودودی لاہور جیل میں تھے اورسزائے موت کاحکم تھا بھٹو جیل سے تختہ دار پر تھا نواز شریف جیل میں تھا پاکستان کا کون سا سیاستدان تھا جوجیل میں نہیں پہنچایا گیا اور آج جو لوگ کرپشن میں پکڑے جاتے ہیں وہ جیل میں سرینا ہوٹل جیسا لطف اٹھاتے ہیں اور ہسپتال کے جیل وارڈ میں فائیو اسٹار کا لطف اٹھاتے ہیں کبھی بلوچستان بار نے اس پر احتجاج کیا ہے؟ کیا قانون دانوں کو کبھی اس کا خیال آیا ہے کہ غریب تو جیل میں رگڑے کھاتے رہیں اور صاحب حیثیت جیل کے دروازے تک پہنچائے نہ جاسکیں۔ عدالتیں ان کی میڈیکل رپورٹ کو کیسے تسلیم کرتی ہیں عدالت نے کیوں جنرل مشرف کی میڈیکل رپورٹ کے سامنے سرجھکا دیے کیوں؟ ہم ایک جنرل کے سامنے بے بس تھے۔