کراچی میں اچانک بدامنی میں اضافہ

230

کراچی میں اچانک ہی راہ زنی، لوٹ مار اور ڈکیتیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسا لگا جیسے امن آتے آتے پلٹ گیا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں تاہم ایک وجہ کی نشاندہی امیر جماعت اسلامی کراچی انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے کی ہے کہ نئے وزیراعظم کی سیاسی مصلحت اور مفاہمتی پالیسی سے جرائم پیشہ عناصر کو حوصلہ ملا ہے۔ حافظ نعیم کے مطابق شاہد خاقان عباسی مجرموں کو سیاسی چھتری فراہم نہ کریں۔ عملاً ایسا ہی کچھ ہورہا ہے اور مینڈیٹ کی آڑ میں جرائم پیشہ گروہوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ گورنر سندھ نے گزشتہ دنوں امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے کی مثال دی تھی کہ اب کسی کے حکم پر شہر بند نہیں ہوتا، ہڑتال کی جاتی ہے نہ جلاؤ گھیراؤ ہوتا ہے۔ گورنر سندھ یہ بھی ارشاد فرمادیتے کہ ایسا کس کے کہنے پر ہوتا تھا۔ ان کا اشارہ الطاف حسین کی طرف تھا لیکن وہ اکیلے ہی کراچی آکر یہ سب کچھ نہیں کرتا تھا اور اس کے اشارے پر جو عمل کرکے شہر میں فساد برپا کرتے تھے وہ اب بھی شہر میں موجود ہیں اور نام بدل کر کام کررہے ہیں۔ کیا پچھلے سال اگست میں الطاف حسین کی باغیانہ تقریر سے پہلے یہ سب کے سب الطاف ہی کے مددگار اور اس کے اشاروں پر چلنے والے نہیں تھے۔ سابق میئر مصطفی کمال اپنی الگ پارٹی بناکر الطاف حسین کو گالیاں دینے کے مشن پر ہیں تاکہ اپنے گناہ دھوسکیں لیکن وہ ایک طویل عرصے تک الطاف حسین کے گناہوں میں شریک بھی رہے ہیں اور چشم دید گواہ بھی ہیں۔ الطاف حسین ان پر اپنے احسانات جتاتارہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی مصطفی کمال اور فاروق ستار کو غلیظ گالیاں بھی دیتا ہے۔ الطاف حسین کے حکم پر اس سال 14 اگست کو کچھ غداروں نے پاکستانی پرچم نذر آتش کرکے اس کی وڈیو بناکر لندن بھیجی جہاں سے وہ بھارت بھیجی گئیں۔ یہ اردو بولنے والوں کی کمر میں الطاف کا ایک اور زہریلا خنجر ہے۔ خیر یہ تو الگ موضوع ہے کہ غداری کی کوئی انتہا نہیں ہوتی لیکن سب سے بڑے غدار کے ساتھیوں سے حکمرانوں کو سوچ سمجھ کر ہاتھ ملانا چاہیے۔ وفاقی حکمران صوبائی اسمبلی اور پارلیمان میں فاروق ستار گروپ کے مینڈیٹ کو سراہ رہے ہیں لیکن اسی مینڈیٹ کے بل بوتے ہی پر تو کراچی کو بارہا نذر آتش کیا جاتارہا ہے۔ ایک دن میں سو سو افراد کو ہلاک کیا گیا۔ یہ الطاف حسین کے حکم پر تو ہوا لیکن اس نے اپنے ہاتھ سے تو جرائم کا ارتکاب نہیں کیا۔ سانحہ 12 مئی اور بلدیہ فیکٹری کو انسانوں سمیت نذر آتش کردینا ایک دو نہیں سیکڑوں افراد کا کام تھا۔ وکیلوں کو ان کے دفاتر میں زندہ جلادینا آخر ان سب سنگین ترین جرائم کے ذمے دار کہاں ہیں۔ جس وقت یہ جرائم سرزد ہورہے تھے کیا موجودہ میئر وسیم اختر، مصطفی کمال، فاروق ستار وغیرہ کے علم میں نہیں تھے؟ یہ ناممکن ہے۔ پارکوں اور سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے ایم کیو ایم کے دفاتر اور سیکٹر آفس قائم کیے گئے۔ بمشکل تمام ان میں سے بیشتر کو خالی کرایا گیا اور اب پھر غیر قانونی دفاتر کو کھولنے کی بات ہورہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے آئے دن مجرموں کو پکڑ رہے ہیں جن میں متحدہ کے ٹارگٹ کلرز بھی ہوتے ہیں لیکن مصلحت کے نام پر جرائم پیشہ عناصر سے مفاہمت سے سب کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ فاروق ستار گروپ نے سینیٹر کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں اپنا امیدوار واپس لے کر ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی بغل میں گھسنے کی کوشش کی ہے لیکن سینیٹ میں متحدہ کے امیدوار کی کامیابی کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ کراچی کے حوالے سے یہ حقیقت تو سب کے سامنے ہے کہ ڈکیت اور راہزن اپنے اپنے بلوں میں سے نکل آئے ہیں اور دیدہ دلیری سے وارداتیں کررہے ہیں۔ پہلے اس مسئلے پر توجہ دی جائے۔