پاکستانی سیاست کے بدلتے رنگ

186

28 جولائی کے بعد پاکستان کی سیاست میں بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف نا اہل ہونے کے باوجود عملاً اب بھی وزیراعظم کا پروٹوکول استعمال کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ان کے نامزد کردہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں۔ اپنی طویل ریلی میں وہ جو کچھ کہتے رہے اس پر معروف قانون دان لطیف کھوسہ نے بڑا لطیف طنز کیا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوئے ہیں، انہیں رونے تو دو۔ ظاہر ہے کہ رونا اور ہنسنا بھی ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اب میاں نواز شریف ان کے بیٹوں اور ایک عم زاد طارق شفیع کو آج نیب نے طلب کرلیا ہے۔ ان کی سہولت کے لیے یہ طلبی لاہور میں رکھی گئی ہے۔ تین بار اس ملک کا وزیراعظم رہنے والے شخص کی بطور ملزم پیشی ہی ان کے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے۔ آج کیا ہوگا ، یہ تو چند گھنٹے میں سامنے آہی جائے گا لیکن اس اثنا میں خود مسلم لیگ ن میں اختلافات سامنے آنے لگے ہیں۔ چودھری نثار تو پہلے بھی حالات کی پیش رفت سے خوش نہیں تھے۔ اب ن لیگ نے بلوچستان کے سینیر لیگی رہنما سینیٹر یعقوب ناصر کو مسلم لیگ ن کا قائم مقام صدر بنادیا ہے گو کہ وہ پارٹی الیکشن تک صدر رہیں گے۔ اس فیصلے سے بھی چودھری نثار نے اختلاف کیا ہے اور پارٹی کے کچھ اور رہنماؤں نے ان سے اتفاق کیا ہے۔ ن لیگ کی صدارت کے لیے شہباز شریف کے نام پر اتفاق ہوا ہے۔ انہیں یہ ذمے داری پارٹی الیکشن کے بعد دی جائے گی۔ اسی اثنا میں شہنشاہ مفاہمت کہلانے والے آصف زرداری نے اعلان کردیا کہ اب نواز شریف سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا۔ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ شریف خاندان کو جیل میں دیکھ رہے ہیں۔ آئندہ کیا ہوگا، اس کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی۔ اس کا پورا دار و مدار نواز شریف پر ہے کہ کیا وہ ریاستی اداروں سے محاذ آرائی جاری رکھیں گے۔ آصف زرداری کے دامن کشاں ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ اپنے تئیں پنجاب کو فتح کرنا چاہتے ہیں اور بقول خود اس کام کے لیے انہوں نے بلاول زرداری کو میدان میں اتاردیا ہے۔ یہ بلاول کی بس کا کام نہیں۔ اور جس طرح مسلم لیگ ن سندھ کو پیپلزپارٹی سے نہیں چھین سکتی اسی طرح ایک عرصے تک پیپلزپارٹی پنجاب کو فتح نہیں کرسکے گی۔ صحیح صورتحال تو چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں سامنے آجائے گی اس سے پہلے کسی ان ہونی کو دعوت نہ دی جائے لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ملک سے باہر ایک دو نہیں 16 آف شور کمپنیاں ہمارے حکمران کی تھیں؟