تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایرانی اپوزیشن رہنما مہدی کروبی کو گزشتہ روز اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ کروبی کے اہل خانہ کے مطابق گزشتہ روز بھوک ہڑتال شروع کرنے کے بعد ان کا فشار خون بڑھ گیا تھا۔ کروبی کا مطالبہ ہے کہ انہیں عدالتی سماعت کی تاریخ دی جائے اگرچہ وہ ایک شفاف مقدمے کی توقع نہیں رکھتے۔ مہدی کروبی پچھلے 6 برس سے نظر بند ہیں۔ وہ اور ایک اور اصلاح پسند رہنما میر حسین موسوی 2009ئکے متنازع صدارتی انتخابات میں امیدوار تھے۔ دونوں کو 2011ء میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ ایرانی پارلیمان کے سابق اسپیکر مہدی کروبی کی جانب سے بھوک ہڑتال کی وجہ اُن کا مطالبہ ہے کہ اُن کے مقدمے کی عدالتی کارروائی شروع کی جائے اور اُن کی نگرانی کا عمل فوری طور پر ختم کیا جائے۔ نظربندی 6 برس گزرنے کے بعد بھی عدالت میں اُن کے خلاف استغاثہ کی جانب سے مقدمہ شروع کرنے کا کوئی چالان پیش نہیں کیا گیا۔ ناقدین کا خیال ہے کہ تہران حکومت اندیشہ نقصِ امن کے تحت اُن کی حراست کو طول دینے کی کوشش میں ہے۔ کروبی ایک مقبول عوامی رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقدمے کوشروع کرنے کے لیے پہلے بھی حکام کو مطلع کیا تھا اور اب انہوں نے اس کے باقاعدہ آغاز کے لیے بدھ 16 اگست سے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ جس کے بعد گزشتہ روز انہیں دارالحکومت تہران میں واقع جدید سہولیات سے آراستہ شاہد راجائی اسپتال میں لے جایا گیا ہے۔ اُن کا بلڈ پریشر غیرمعمولی طور پر بلند ہو گیا تھا جو اُن کے لیے جان لیوا بھی ہو سکتا تھا۔ مہدی کروبی نے اسپتال پہنچ کر بھی کچھ بھی کھانے سے انکار کر دیا ہے۔ اُن کی علالت اور اسپتال منتقل کرنے کی تفصیلات سہام ویب سائٹ پر رپورٹ کی گئی ہے۔ اُن کے بیٹے محمد نے اپنے والد کے اسپتال داخل کیے جانے کے بارے میں ٹویٹ کیا ہے۔ انہوں نے ایرانی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کروبی کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعائیں کریں۔ اپوزیشن لیڈر کی اہلیہ فاطمہ کروبی نے سہام نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ اُن کے شوہر کا پہلا اور بڑا مطالبہ گھر کے اندر سے خفیہ محکمے کے ایجنٹوں اور حال ہی میں ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کے نصب کیے جانے والے کیمروں کو ہٹانا ہے۔ فاطمہ کروبی کے مطابق 1979ئکے اسلامی انقلاب کے بعد اتنی طویل نظر بندی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ کروبی کی اہلیہ کے مطابق اُن کے شوہر کا دوسرا مطالبہ ہے کہ اُن کے خلاف عدالتی کارروائی کھلے عام ہو تا کہ اُن پر عائد الزامات سے تمام ایرانی عوام آگاہ ہو سکیں اور اس صورت میں وہ عدالتی فیصلے کو تسلیم کریں گے۔