اچکزئی کی انوکھی تجویز

242

Edarti LOHحکمران جماعت مسلم لیگ ن کے اتحادی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ملکی اور خارجہ امور میں اپنی الگ ہی رائے رکھتے ہیں جس سے عموماً اتفاق نہیں کیا جاتا۔یہ صحیح ہے کہ وہ ایک کھرے آدمی ہیں لیکن ان کی سوچ ایک پاکستانی کی سوچ سے مختلف ہی ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں خطاب اور ایک انٹرویو میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کے بیشتر نکات ایسے ہیں جیسے کسی بھارتی رہنما یا افغان حکومت کے ہوں۔ افغانستان کے حوالے سے ان سے زیادہ شدت سے باچا خان اور ان کے صاحبزادے ولی خان بولتے رہے ہیں ۔ جس وقت افغانستان کی سڑکوں پر روسی ٹینک دندنا رہے تھے ولی خان کو وہ نظر ہی نہیں آتے تھے۔ ان کے والد خان عبدالغفار عرف باچا خان نے تو پاکستان کی سرزمین میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا۔ یہ باتیں تو پرانی ہوگئیں لیکن محمود خان اچکزئی بھی اسی سوچ سے متاثر نظر آتے ہیں ۔ ان کے نظریات و خیالات کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کی خود مختاری کا احترام نہیں کرتا اور وہاں جو بھی گڑبڑ ہو رہی ہے اس کا ذمے دار پاکستان ہے۔ پختون ہونے کے باوجود انہوں نے افغان بھائیوں سے کسی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا جن کو اب امریکا نے غلام بنا رکھا ہے ۔



انہوں نے افغانستان پر قابض امریکا سمیت غیر ملکی طاقتوں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ کشمیر کے بارے میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے انوکھی تجویز دی کہ پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کو آزاد کردیں ۔ اس سوال پر کہ اگر بھارت نے ایسا نہیں کیا تو کیا ہوگا ؟ ان کا جواب تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر چھوڑنے پر رضا مند نہ ہو تو نہ سہی ہم تو بچ جائیں گے اور دنیا کو بتا سکیں گے کہ پاکستان مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔ کیا خوب! سیدھے سیدھے کہہ دیں کہ کشمیر بھارت کے حوالے کردیا جائے۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ خود کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ بالفرض اگر ان کی تجویز پر عمل کر بھی لیا جائے تو کیا کشمیری اپنی طویل جدوجہد آزادی سے دستبردار ہو جائیں گے جس میں وہ لاکھوں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ان کے بقول ’’ ہم تو بچ جائیں گے‘‘ مگر کس چیز سے ؟ کیا بھارتی الزامات سے جو کشمیریوں کی تحریک کو پاکستانی تحریک قرار دیتا ہے۔ اس طرح خود اچکزئی نے بھی بھارتی الزامات کی توثیق کی ہے۔ کشمیریوں کو روزانہ شہید کرنے والے بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اپنے وزیر اعظم کے اس بیان کو دل کو چھو لینے والا قرار دیا ہے کہ حکومت گولی اور گالی کے بجائے پرامن مذاکرات میں یقین رکھتی ہے۔ اور اسی دن بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر کے طلبہ پر گولیاں چلا رہی تھی۔



محمود خان اچکزئی کے علم میں ہوگا کہ بلوچستان میں بھی کچھ شرپسند بھارت کے ایما پر علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں ۔ کیا اس پر بھی وہ یہی کہیں گے کہ بلوچستان کو الگ کردو تاکہ ہم بچ جائیں ۔ اچکزئی نے اپنے خطاب میں کچھ معقول باتیں بھی کی ہیں مثلاً یہ کہ آئین کو نہ ماننے والے جرنیل اور ججز غدار ہیں، فوج سمیت کسی ادارے کو اپنے فیصلے منوانے کا حق نہیں۔ انتخابات اور پارلیمنٹ میں ایجنسیوں کی مداخلت کو روکنا ہوگا۔ اچکزئی نے پارلیمان کو مضبوط بنانے پر زور دیا جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اچکزئی کو چاہیے کہ کشمیر کو آزاد کرنے کا فیصلہ بھی پارلیمان سے کرائیں ۔ ویسے انہیں یاد تو ہوگا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد میں آزادی کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ وہ استصواب رائے کے حق کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے والے کشمیری یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ تو بھارت سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنی جان پر کھیل رہے ہیں ، اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھنے والوں کو کیا تکلیف ہے کہ وہ زبانی تائید و حمایت بھی نہیں کرسکتے اور ان کو بھارت کی جھولی میں پھینک رہے ہیں۔