پاک فوج کی امریکا کو تعاون کی یقین دہانی

231

Edarti LOHپاکستان کی فوج نے امریکا کو ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی قیادت میں موجود اتحادی فورسز سے تعاون کے وعدوں پر پورا اترے گی اور خطے میں امن کے لیے افغان سیکورٹی فورسز کا بھرپور ساتھ دے گی۔ یہ یقین دہانی پاک فوج کے سالار قمر جاوید باجوہ نے امریکا سے آئے ہوئے فوجی وفد کو کرائی ہے جو سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے۔ امریکا کو یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت تو نہیں تھی کہ پاکستان افغانستان میں امریکی فوج سے تعاون جاری رکھے گا کیوں کہ 2002ء میں افغانستان پر امریکی اور اس کے صلیبی حواریوں کے حملے کے بعد سے پاکستان یہی کچھ تو کررہا ہے ۔ پاکستان کی کسی حکومت نے کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ ایک آزاد و خود مختار ملک افغانستان پر امریکا کیوں چڑھ دوڑا بلکہ افغانوں کے قتل عام میں پاکستان نے امریکا کی بھرپور مدد ہی کی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ افغانستان میں متعین امریکی فوجیوں کی تقویت کے لیے بھیجا جانے والا سامان بھی پاکستان کی سرزمین سے ہوتا ہوا جاتا رہا ہے۔



ان کنٹینروں میں کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کی اجازت پاکستان کے کسی ادارے کو نہیں تھی ۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس میں افغانوں کے قتل عام میں تیزی لانے کے لیے اسلحہ ضرور ہوتا ہوگا۔ ان تھکے ہارے امریکی فوجیوں کو سکون فراہم کرنے کے لیے شراب بھی لازمی ہوتی ہوگی اور ایک بار یہ خبر بھی آئی تھی کہ ان کنٹینروں میں فوجیوں کے لیے پیمپرز بھی ہوتے ہیں کیوں کہ یہ بزدل فوجی اپنی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں سے اتر کر کھلی جگہوں میں جانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ بزدل سفاک بھی ہوتا ہے اور افغانستان کے عام شہریوں اور بچوں تک کو جس سفاکی سے قتل کیا گیا اس کے بارے میں بہت سی باتیں سامنے آچکی ہیں۔ اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ۔ امریکی فوجیوں نے جہاں بھی غلبہ حاصل کیا اپنی سرشست کا مظاہرہ کیا۔ یہ وہی سرشست ہے جس کا مظاہرہ امریکا کے اصل باشندوں ریڈ انڈینز کے ساتھ کیا گیا یا افریقا سے پکڑ پکڑ کر لائے گئے افراد کو غلام بنا کر کیا گیا۔ امریکا کو وہم ہے کہ پوری دنیا اس کی محکوم ہے۔ 2001ء میں نیویارک میں جڑواں میناروں پر طیاروں کے حملے میں افغانوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جن ملزموں کے نام سامنے لائے گئے وہ عرب تھے۔ اس کے باوجود افغانستان پر حملہ کردیا گیا۔



بہرحال صورت حال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی درندگی کی بھرپور حمایت اور تعاون کے باوجود پاکستان کے حوالے سے امریکا کے مزاج ہی نہیں ملتے اور بار بار کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے بارے میں اپنی وفاداری کا ثبوت نہیں دیا اور اس کی وجہ سے افغانستان میں عسکریت پسندی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ یہ بات کہتے ہوئے امریکی انتظامیہ کو لحاظ بھی نہیں آتا کہ امریکا 16سال سے افغانستان میں کیا کررہا ہے۔ اگر وہ افغانوں کو محکوم بنانے میں ناکام رہا ہے تو وہاں کیوں گھسا بیٹھا ہے۔ یہ بات کھل کر ہماری پاک فوج نہیں کہہ سکتی کیوں کہ اسے امریکی امداد کا آسرا رہتا ہے۔ لیکن اس میں بھی کٹوتی کی جارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ امریکا سے صاف کہہ دیا جائے کہ افغانستان کے معاملے میں اس سے کوئی تعاون نہیں کیا جائے گا۔ لیکن یہ کہنے کے لیے بڑی جرأت چاہیے۔



اسی اثناء میں امریکی صدر ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ میں مشاورت کے بعد نئی افغان پالیسی تیار کرلی ہے جس کا اظہار ابھی نہیں ہوا۔ گزشتہ جمعرات کو امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں جاری 16سالہ جنگ کے بارے میں نئے فیصلے کرلیے ہیں ۔ تاہم انہوں نے بھی کوئی اشارہ نہیں دیا کہ نئی حکمت عملی کیا ہوگی۔ جنرل باجوہ نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے کچھ نہیں کیا اور امریکی وفد پر واضح کیا کہ پاکستان ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں امن کے لیے کوئی دوسرا ملک اتنا بے تاب نہیں ہوسکتا جتنا پاکستان ہے۔ جنرل باجوہ یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ پاکستان کچھ بھی کرلے امریکا خوش نہیں ہوگا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اگر سوویت یونین افغانستان پر قبضہ کرلے تو اس کے خلاف پورا عالم اسلام جہاد میں شریک ہوجاتا ہے اور اگر یہی کام امریکا کرے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔