صرف حکومتی اور سیاسی اتحادی وہ ہیں جو شریک اقتدار تو ہیں مگر مشکل لمحوں میں اپنا دامن بچانے اور چپ کا روزہ رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرکے آنے والے حالات کی تصویر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ اتحادی بم وہ ہیں جو میاں نوازشریف کے اتحادی بھی ہیں اور پروانے کی طرح اپنی شمعِ اتحاد پر جل مرنے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ جب سے میاں نوازشریف حالات زمانہ کا شکار ہوئے ہیں ان کے اتحادی پروانے اور بم اسٹیبلشمنٹ کو چڑانے اور چھیڑنے کے لیے وقفے وقفے سے کوئی ایسا جملہ چھوڑتے ہیں جس کی کسک کچھ دیر کے لیے محسوس کی جاتی رہی ہے۔ جو باتیں نوازشریف خود کہنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں اتحادی بم پھٹ کر وہ بات کہہ جاتے ہیں۔ اسمبلی میں گرجنے برسنے سے ایک روز پہلے سے محمودخان اچکزئی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پہل کرتے ہوئے اسے آزادکردینے کی تجویز پیش کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ دو حصوں میں بٹے کشمیر کو آزاد کردینے کی بات سے پاکستان دنیا کو یہ بتا سکے گا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے مگر اسے حل کرنے کے لیے ہم نیا راستہ کیوں نہیں اپناتے؟۔
محمود خان اچکزئی نے پاکستان کی طرف کشمیر کو آزاد کردینے کے اعلان کی جو تجویز پیش کی ہے یہ مسئلے کے حل کا کوئی جادوئی اور انوکھا فارمولہ نہیں۔ ماضی میں پاکستان کے سویلین اور فوجی حکمران طبقات اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھارت کے لیے اس طرح واضح پیغامات اور اشارے جاتے رہے ہیں مگر ہر بار بھارت کا انکار بات کو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں اندر خانے بات چیت چلتی رہی اور کہا جاتا ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی موت کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ نوے کی دہائی کے اوائل میں میاں نوازشریف نے بطور وزیر اعظم ایران میں دوٹوک انداز میں کہا کہ اگر کشمیری خود مختار رہنا چاہیں تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ تہران سے واپس اسلام آباد پہنچنے کے بعد میڈیا میں شور اُٹھنے کے بعد انہوں نے اس بیان کی تردیدکی مگر یہ بہت کمزور تردید تھی۔ میاں نوازشریف کی اس بات کے جواب میں بھارت کی طرف سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ بے نظیر بھٹو اپنے اقتدار کے دنوں میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر زور دیتی رہیں مگر اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد انہوں نے بھی کئی آؤٹ آف باکس حل تجویز کیے۔ جن میں ایک حل مسئلہ کشمیر کا آئرلینڈ طرز پر حل بھی شامل تھا۔ پاکستان کی اس ایک اہم قومی راہنما کی اس تجویز کو کبھی بھارت نے سنجیدہ نہیں لیا۔ اس کی وجہ برسوں پہلے بھارت کے سیکرٹری خارجہ سلمان خورشید نے یہ کہہ کر بیان کی تھی کہ بھارت پچاس سال بعد بھی نہ مسئلہ کشمیر کو حل کر سکا اور نہ ہی اسے مسئلہ تسلیم کر سکا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تو ساری حدیں عبور کی گئیں۔ انہوں نے کشمیر کے دو منقسم حصوں پر دو نیم خود مختار حکومتوں کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز میں سر ی نگر سے بھارت کا کنٹرول ختم کرنے کی بات شامل نہیں تھی۔ اسی سمت میں مزید تیز رفتاری سے پیش رفت کرتے ہوئے جنرل مشرف نے سر ی نگر پر پاکستان کے روایتی دعوے سے دستبردار ہونے کا اعلان بھی کیا۔ اس اعلان کے پیچھے معانی اور مفاہیم کا ایک جہان تھا مگر بھارت نے اس پیشکش کا مذاق اُڑایا۔ جب بھارتی فیصلہ سازوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کے ایک لبرل جنرل کی تجویز سے فائدہ نہ اُٹھایا گیا تو کوئی داڑھی والا جنرل آکر سب کچھ رول بیک کردے گا تو بھارتی میڈیا نے اس بات کو مذاق میں یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ لبرل اور سخت گیر جرنیلوں کا یہ ڈراوا امریکا کے لیے تو کارگر ہو سکتا ہے بھارت کے لیے نہیں۔ اس طرح وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور خطے کے مناظر بھی بدل گئے اور یوں مسئلہ کشمیر کا پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ اب محمود اچکزئی اپنی تجویز کو اہم ’’ایٹمی فارمولہ‘‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کا سرکاری اور قومی موقف کچھ بھی ہو مگر پاکستان نے ہمیشہ کشمیر کے ’’آؤٹ آف باکس‘‘ حل پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ آوٹ آف باکس حل کا مطلب یہ نہیں کہ کشمیر پر بھارت کے قبضے پر تصدیق کی مہر ثبت کی جائے۔ ایسا ہونا کشمیری عوام کی قربانیوں کے قطعی برعکس ہوگا۔ محمود خان اچکزئی اور ان جیسی سوچ اور پس منظر رکھنے والے راہنماؤں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ بھارت اور گرد وپیش میں اپنی روایتی اور تاریخی دوستیوں کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو بتائیں کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک ایسی نئی راہ تلاش کرنا ضروری ہے جس میں کشمیریوں کی قربانیوں اور خواہشات کو پیش نظر رکھا گیا ہو اگر وہ یہ بات بھارت میں منوانے میں کامیاب ہوں تو یہ کشمیریوں پر ہی نہیں اس خطے کی آنے والی نسلوں پر ان کا احسانِ عظیم ہوگا۔