آج کل اپنے میڈیا سے طبیعت اکتائی ہوئی ہے، اس لیے جب وقت ملتا ہے تو سی این این، بی بی سی، آر ٹی اور الجزیرہ ٹیلی ویژن کے ٹکر اور بریکنگ نیوز دیکھ لیتے ہیں۔ شمالی کوریا پر امریکا نے ایٹم بم اور میزائل بنانے کے جرم میں پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، لیکن اُن پر اس کا کوئی اثر مرتّب نہیں ہورہا، بلکہ شمالی کوریا کے صدر کِم یانگ اون امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اُن سے زیادہ سخت لہجے میں جزیرۂ گوام پر میزائل گرانے کی جوابی دھمکیاں دیتے ہیں۔ گوام میں امریکا کا فوجی اڈہ ہے، چھ ہزار فوجی ہیں اوران میں مزید پانچ ہزار کا اضافہ زیرِ غور ہے، اس کی مجموعی آبادی تقریباً ایک لاکھ پینسٹھ ہزارہے۔ اس جزیرے کا شمالی کوریا سے فاصلہ 3430 کلو میٹر ہے۔ ٹرمپ نے Fire & Fury یعنی آتشِ بارود اور آتشِ غیظ وغضب کی دھمکی دی، انہوں نے مزید کہا: ’’Our Military is unlocked & loaded‘‘ یعنی ہماری فوج اسلحہ سے لیس ہے اور حملہ کرنے کے لیے تیار ہے، انہوں نے یہ بھی کہا: ’’ہم شمالی کوریا کو نشانِ عبرت بنادیں گے جو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا‘‘، لیکن شمالی کوریا کے صدر ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ یہ بھی دکھایا گیا کہ جاپان اپنے Interception میزائل یعنی دشمن کے فائر کیے ہوئے میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے فضا میں نشانہ بناکر تحلیل کرنے والے دفاعی میزائل کو ہائی الرٹ پوزیشن میں نصب کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے چین کے صدر شی جن پنگ سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا کہ وہ شمالی کوریا کے صدر کو فہمائش کریں اور انہیں کہیں کہ ہوش کے ناخن لیں، جواب میں صدرِ چین نے کہا: آپ صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں، جنوبی کوریا کی قیادت بھی تحمل کا مشورہ دے رہی ہے۔
یہ ساری تفصیل آپ کو اس لیے بتائی جارہی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ملک ہوتا تو ردِّ عمل کا انتظار یا فریقِ مخالف کو انتباہ کیے بغیر فوراً اُسے تورا بورا بنا دیا جاتا اور ’’مدر آف آل بمز‘‘ گرانے میں بھی دیر نہ کی جاتی، لیکن یہاں مسئلہ مختلف ہے۔ وینزویلا کے صدر ہوگوشاہویز نے اُس وقت کے امریکی صدر بش کو ابلیس کہا تھا۔ پس بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ سارا عالَم کفر اپنے تمام تر اختلافات اور مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود اسلام کے مقابلے میں ملتِ واحدہ بن جاتا ہے اور قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سچ ہے: ’’بَعْضُھُمْ مِنْ بَعْض‘‘ ترجمہ: وہ ایک دوسرے میں سے ہیں، (التوبہ:67)‘‘، کیا کسی بھی ذی شعور کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے کسی مزید دانش کی ضرورت ہے۔
امریکی میڈیا:
ہمارے ہاں میڈیا کی باہمی رقابت تو روز مرہ کا معمول ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ آج کل امریکا میں بھی یہ منظر دکھائی دیتا ہے۔ روایتی طور پر امریکا کا سی این این ٹیلی ویژن ڈیموکریٹک پارٹی کا حامی اور فوکس ٹیلی ویژن ریپبلکن پارٹی کا ہمنوا ہے۔ پس امریکا کے تناظر میں سی این این لبرل نظریات کا علم بردار ہے اور فوکس کنزرویٹو یعنی قدامت پسند نظریات کا علم بردار ہے، یہی تقسیم برطانیہ کی لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی میں ہے۔
RT ٹیلی ویژن پر زوردار مباحثہ چل رہا تھا کہ CNN در اصل Counterfeit News Network ہے، Counterfeit کے معنی ہیں: بناوٹی، نقلی، جعلی اور کھوٹا۔ بتایا جارہا تھا کہ سی این این کے پروڈیوسر ’’وان جونز‘‘ کو آن کیمرہ یہ کہتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا: Russian gate was propoganda tool for rating، یعنی امریکی صدارتی انتخاب کے موقع پر امریکی الیکشن کمیشن کے سافٹ ویئر پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں روسی دخل اندازی کا پروپیگنڈا دراصل ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے تھا اور صدر ٹرمپ بھی اسی لیے ان کو Fake یعنی جعلی میڈیا کہتا ہے، جیسے ہمارے ہاں انڈین ایجنٹ یا امریکی ایجنٹ یا حکومت کا گماشتہ اور لفافہ جرنل ازم کی پھبتی کسی جاتی ہے، RT ٹیلی ویژن پر سی این این کے لیے لبرل کی پھبتی کسی جارہی تھی، جب کہ ہمارے ہاں لبرل ازم کو ترقی اور دانش مندی کی معراج سمجھا جاتا ہے۔
ورجینیا اسٹیٹ میں نسلی تشدد:
امریکی ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹ وِل (Charlottesville) میں سفید فام نسل پرستوں (s Racist) نے12اگست کو پرتشدد مظاہرے کیے، تین آدمی مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے، ورجینیا کے گورنرٹیری مَکولف نے شہر میں ہنگامی حالت نافذ کردی۔ ابتدا میں صدر ٹرمپ نے تشدد (Violence)، نسلی تعصب (Bigotry) اور منافرت (Hatred) کی مذمت کی، مگر سفید فاموں کی نسلی بالادستی کے علم بردار Superimacist گروہ کی مذمت نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس اس گروہ کے رہنما نے ٹرمپ کو ٹویٹ کیا: ’’یاد رکھیے! آپ کو وائٹ ہاؤس میں ہم نے داخل کیا ہے‘‘، چنانچہ سی این این پر ٹرمپ کے اس رویے کی مذمت شروع ہوگئی، پھر صدر ٹرمپ نے عمومی مذمت کی، مگر بعد میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ پہلے بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے سفید فام ہیرو ’’رابرٹ لی‘‘ کا مجسمہ گرایا اور ردِّ عمل میں سفید فام انتہا پسندوں نے تشدد کیا، لہٰذا ہم دونوں کے تشدد کی مذمت کرتے ہیں، یعنی انہوں نے ظالم و مظلوم اور جارح ومجروح کو ایک صف میں کھڑا کردیا ہے۔
اس پر بعض ریپبلکن رہنماؤں بالخصوص امریکن فیڈریشن آف لیبر اینڈ کانگریس آف انڈسٹریل آرگنائزیشن کے صدر رِچرڈ لوئس ٹَرَمکانے احتجاجاً اپنے منصب سے استعفا دے دیا۔ جمعرات کی صبح سی این این پر ٹرمپ کی مذمت کے ٹِکرچل رہے تھے کہ انہوں نے اپنے رویّے پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام اکثریت میں نفرت کے جذبات کو ابھارا اور خوف دلایا کہ وہ اقلیت میں تبدیل ہوسکتے ہیں، اُن کے روزگار کے مواقع پر تارکینِ وطن اور دوسرے طبقات قابض ہوتے جارہے ہیں۔ اس حربے سے کام لے کر جنابِ ڈونلڈ ٹرمپ صدر تو منتخب ہوگئے، مگر اب نسلی جنون کا جِن بوتل سے باہر آگیا ہے۔ اب امریکی معاشرے میں تشتُّت وافتراق اور شکست وریخت کے آثار واضح ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کے دلوں میں صنعتوں کو واپس لانے اور روزگار کے وسیع پیمانے پر مواقع پیدا کرنے کی جو جَوت جگائی تھی، اس کی چمک بھی اب ماند پڑ رہی ہے، کیوں کہ یہ نعرہ ہے تو یقیناًپرفریب، مگر اس خواب کی تعبیر ملنا مشکل ہے۔
البتہ صدر ٹرمپ لوگوں کو ذہنی طور پر مصروف رکھنے کے لیے نِت نئے مسائل سامنے لاتے رہتے ہیں، اب انہوں نے چین پر سرقۂ دانش (Intellectual Theft) کا الزام لگایا ہے اور چین کی تجارت کے بارے میں تحقیق کا حکم جاری کیا ہے، ظاہر ہے کہ دانش کا سرقہ اہلِ دانش ہی کرسکتے ہیں۔ امریکیوں کا چین سے گِلہ یہ ہے کہ وہ ٹیکنالوجی ایجاد کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور چین اُس کی نقالی (Replication) کر کے مفت میں مال بنا رہا ہے، یعنی: ’’ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا آئے‘‘۔
حرب النجوم:
سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن نے سب سے پہلے ’’اسٹار وار‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا اور اب یہ حقیقت بنتا جارہا ہے۔ آج پوری دنیا کے سول اور دفاعی اعصابی نظام کا مدار کمپیوٹر اور سیٹلائٹ (خلا میں معلق مصنوعی سیارچے) پر ہے، اور تو چھوڑیے!گاڑیوں میں نصب نیویگیشن سسٹم کو بھی سیٹلائٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے،
اس میں جو پتا فیڈ کیا جائے، نیویگیٹر گاڑی کو اس دروازے کے سامنے لا کھڑا کردیتا ہے۔ جدید میزائل اور ایٹمی میزائل بھی اسی حسّاس اطلاعاتی نظام کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں، فرق یہ ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی سب سے بالاتر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ کسی ممکنہ عالمی جنگ کی صورت میں بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے سیٹلائٹس کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنائیں گی تاکہ دشمن کا اعصابی حربی نظام مفلوج ہوجائے اور اس کی بالادستی ختم ہوجائے، واللہ اعلم بالصواب۔
جنگ کی نج کاری:
امریکا افغانستان میں اپنی شکست پر دل گرفتہ ہے، دبے لفظوں میں شکست کا اعتراف بھی کیا جارہا ہے، صدر ٹرمپ نے افغانستان کے لیے نئی پالیسی مرتب کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اس پر بھی غور ہورہا ہے کہ مزید افواج افغانستان بھیجی جائیں، الغرض پینٹا گون بھی دباؤ میں ہے۔ دوسری جانب امریکی میڈیا پر ایک خبر یہ آرہی تھی کہ بلیک واٹر جیسے اداروں نے امریکا کو پیش کش کی ہے کہ وہ افغانستان کی جنگ کو فرنچائزکرکے اسے بلیک واٹر ایسے پرائیویٹ اداروں کو ٹھیکے پر دیدے، ظاہر ہے اس سے پینٹا گون کی سبکی ہوگی اور اس کے واضح معنی دہشت گردی کو قانونی حیثیت دینا ہوگا۔ بلیک واٹر ایسے ادارے بڑی تعداد میں نجی لوگوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دے کر پاکستان اور افغانستان بھیجیں گے اور وہ اپنے مقامی ایجنٹ بھی بھرتی کریں گے، جنہیں Mercenary یعنی کرائے کی فوج کہا جاتا ہے۔ پھر وہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح معاشرے میں نفوذ کر کے اپنے اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔ ظاہر ہے وہ جدید ترین اسلحہ، دفاعی اور مواصلاتی نظام سے لیس ہوں گے، ہمارے انٹیلی جنس اور دفاعی اداروں کو اس کی پیشگی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
ہوسکتا ہے امریکا غیر عَلانیہ طور پر ایک متوازی نظام کے طور پر اس کا تجربہ کرے۔ امریکا اور مغربی معاشرے کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرلیتے ہیں، جیسے اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف اپنی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کا ازالہ کرنے کے لیے تدبیریں اختیار کرتے ہیں۔ مگر ناکامی کا اعتراف کرنے کے لیے بھی حوصلہ چاہیے، جب کہ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ ہم اس حوصلے اور حقیقت پسندی سے عاری ہیں۔
پروفیسر حفیظ تائب نے کہا تھا:
سچ مِرے دَور میں جرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فنِّ عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل وبے رہ روی،ایک آزار ہے آگہی یانبی ؐ