خبر کے مطابق پاناما کیس میں معزز جج نے اسپیکر قومی اسمبلی کو نواز شریف کا وفادار قرار دیا تھا جو حقائق کے منافی ہے، اس سے ایوان کے 342 اراکین اور اسپیکر کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ کیا یہ خبر اخبارات نے اپنے طور پر گھڑلی ہوگی؟؟ اس کی تردید قومی اسمبلی کے ترجمان نے کی ہے اور بہت واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی ریفرنس نہیں بھیجا۔ محکمہ قانون کو اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے کوئی مسودہ نہیں بھیجا گیا۔ تو پھر یہ سوال اسمبلی سیکرٹریٹ سے کیا جانا چاہیے کہ پھر اس کی تحقیقات کیوں نہیں کرتے۔ کیا یہ بھی دوسرا ڈان لیکس ہے۔ ڈان لیکس والی خبر ساری کی ساری جھوٹی تو نہیں تھی۔ کچھ نہ کچھ تو تھا اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ اخبارات قیاس آرائیوں سے گریز کریں، ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔ بالآخر ڈان لیکس وزیر اطلاعات، مشیر خارجہ اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو لے ڈوبا۔ اب اسپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس کی خبر سامنے آئی ہے اس میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی پوزیشن خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے،
اگر یہ ریفرنس دائر نہیں کیا گیا تب بھی چیف جسٹس کی پوزیشن تو خراب کردی گئی۔ اگر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اس کا نوٹس نہیں لیتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود ذرائع ہی اس خبر کی پشت پر ہیں، ورنہ کم از کم اسپیکر کو خود اس پر کوئی بات کہنی چاہیے۔ اس خبر میں اسپیکر کی ساکھ بھی خراب ہورہی ہے۔ وہ اسپیکر ہو، گورنر یا وزیر وہ ہیں تو نواز شریف کے پکے وفادار اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔لیکن جو کچھ وزیراعظم نے کہا ہے وہ تو یہی بتارہا ہے کہ اگر ریفرنس بھیجا نہیں گیا تو وہ اس کے حوالے سے شائع شدہ مواد کے حامی ہیں جب ہی تو انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اور یہ بات بھی عجیب ہے کہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی نہیں ہے لیکن وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ جو لوگ ریفرنس دائر کرتے ہیں ان کا جواب دیا جائے گا، مقابلہ کیا جائے گا۔ تو یہ ریفرنس کون دائر کرتا ہے، کوئی نہ کوئی ادارہ یہ کام کرتا ہے گویا وزیراعظم نے کھل کر کہا کہ ریفرنس دائر کرنے والوں کا جواب بھی دیں گے اور مقابلہ بھی کریں گے۔
وہ جب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے تو گویا اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوچکی بلکہ جاری ہے۔ اسپیکر کا سیکریٹریٹ تو یہی کہہ رہا ہے کہ کوئی ریفرنس نہیں دیا گیا لیکن اخبارات میں جہاں چپقلش نظر آتی ہے وہاں تو یہ خبر بھی گشت کررہی ہے کہ ریفرنس تیار ہے، دباؤ کی وجہ سے اسپیکر پسپا ہوگئے۔ ضرور بھیجا جائے گا۔ اب اس کی تحقیقات کون کرے کہ حکومت اداروں سے ٹکرا رہی ہے یا میڈیا اس کے حوالے سے بے پَرکی اُڑا رہا ہے۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہے تب ہی اتنا شور ہے۔ یہ بھی عجیب روایت ہے کہ اگر اپنے اوپر اعتماد نہ ہو تو اخبارات پر ڈال دو۔ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ شمالی علاقہ جات اور وزیراعظم آزاد کشمیر نے متنازعہ بیانات دیے تھے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے تو کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے بارے میں ہی فیصلہ سنادیا تھا کہ سوچنا پڑے گا کہ پاکستان سے الحاق کیا جائے یا نہیں لیکن جب دباؤ پڑا تو کہہ دیا کہ خبر ایجنسی نے جھوٹ گھڑا ہے اور خبر ایجنسی نے اپنے پاس ریکارڈنگ کی موجودگی کا دعویٰ کردیا۔ اس خبر کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ اسپیکر کا ترجمان تردید کررہا ہے اور اخباری ذرائع مصر ہیں کہ ایسا ریفرنس تیار ہے۔ یہ ریفرنس بھیجا جائے گایا نہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کا موقف اور نقطہ نظر سامنے آگیا ہے۔
یہ کام پہلے نہال ہاشمی سے لیا گیا جس جس کو جو کہلوانا تھا جو جو پیغامات دینے تھے وہ دے دیے گئے، اب اسپیکر کی جانب سے ریفرنس کی خبر لیک کرکے چیف جسٹس کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر چیف جسٹس ازخود نوٹس نہیں لے رہے تو عدالت عظمیٰ کے دوسرے ججز اس کا نوٹس لیں اگر ریفرنس ہے تو پیش کیا جائے اور نہیں ہے تو اخبارات نے کہاں سے شائع کردیا۔ اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی جہاں تک بات ہے کچھ تو ہے جب ہی مسلم لیگ کے رہنما وزیراعلیٰ پنجاب نے وزرا اور ارکان اسمبلی کو اداروں کے خلاف بیانات دینے سے روک دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی عہدیدار اداروں کے وقار کے منافی قیاس آرائی نہ کریں۔ پاکستان اداروں کے تصادم کا متحمل نہیں۔ شہباز شریف صاحب کا بیان اور ہدایت نامہ بھی بتارہا ہے کہ اداروں کے درمیان تصادم اور محاذ آرائی ہے۔ سپریم کورٹ بار نے تو بہت واضح طور پر کہہ دیا کہ نواز لیگ کیا چاہتی ہے۔
سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ نے کہا کہ مبینہ ریفرنس ججز کو تقسیم کرنے کا بہانہ ہے، حکومت چاہتی ہے کہ پاناما فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیلوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نہ کریں۔ اور یہی بات زیادہ قرین حقیقت لگتی ہے۔ شاید مسلم لیگی رہنما طلال چودھری تک شہباز شریف کی ہدایت نہیں پہنچی یا وہ ان کی ہدایات کے پابند نہیں ہیں۔ انہوں نے اس لہجے میں بات کی ہے کہ ریفرنس دائر کرنا اسپیکر کا حق ہے۔ اگر اسپیکر نے تردید کردی ہے تو طلال چودھری کو یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کو کہیں اور سے ہدایات مل رہی ہیں۔ چناں چہ انہوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہا ہے کہ کوئی مقدس نہیں ہے کسی سے غلطی ہوئی ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ گویا وہ چیف جسٹس کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود یہ کہا جائے کہ کوئی محاذ آرائی نہیں تو بات منافقانہ لگتی ہے۔