’’یوم پاکستان‘‘ مزدور کے حالات زار

215

عبدالحئی
( دوسری اور آخری قسط)
یہ کام انہوں نے افغانستان سے سیکھا ہے۔ شاید ان کو یہ پتا نہیں کہ غیر ملکی آقاؤں کی گود میں بیٹھ کر انقلاب نہیں آتے۔ محنت کشوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا عمل جاری تھا اور جاری ہے۔ عوامی قوتوں کو جن کو ہم محنت کشوں کا متحدہ محاذ کہتے ہیں اگر تقسیم کردیا جائے تو یہ طاقت کسی قابل نہیں رہتی۔ یہ طاقتیں آپس میں ایک دوسرے پر حملے کرکے قتل غارت گری، پارٹی چلانے اور ہتھیاروں کی خریداری کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کی غرض سے اس نے بھی غریب عوام کو لوٹ لیتے ہیں۔ مختلف شکلوں میں۔ یہ سب مزدور ہیں سڑکوں پر ٹھیلا لگانے، پھل اور سبزی و دیگر اشیا کی فروخت، انسانوں کو جانوروں کی طرح بھر کر لے جانے والی ٹرانسپورٹ، ہسپتالوں میں مریضوں کو جعلی دوائیں بیچنے والے، اسکولوں میں مہنگی ترین تعلیم فراہم کرنے والے وغیرہ وغیرہ۔
جہاں سرمایہ کاری ہوتی ہے مزدوروں کا ارتقا بھی اسی رُخ پر ہوتا ہے۔ لہٰذا صنعتی شہروں میں محنت کشوں کی آبادیاں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں محنت کشوں یا غریب افراد کے لیے حکومت نے کئی ہزار کواٹرز کی تعمیرات کروا کر ان کو سستے داموں میں یا قسطوں کی ادائیگی کی شکل میں رہائشی کالونیاں آباد کیں۔ لانڈھی، کورنگی، نارتھ کراچی، ملیر، سرجانی جیسے علاقوں میں 80 گز کے کوارٹرز قسطوں پر کراچی کے غریب عوام کو دیے گئے۔ کراچی میں پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والوں نے کچی آبادیاں صنعتی علاقوں کے اردگرد آباد کردیں۔ محنت کشوں میں کرپشن کی ابتدا یا آغاز اسی ادوار میں زیادہ تیزی سے پھیلا۔ ہمیں یونین سازی کی جانب بڑھتا ہوا تیز رجحان نظر آتا ہے۔ لیکن اس میں خوشی کی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہے کیوں کہ سرمایہ دار سے سرمایہ داری نظام میں کرپشن ہوتی ہے۔ (اس کے پھیلاؤ کی اولین شرط کرپشن ہے)۔



محنت کشوں کی تنظیم سازی میں سرمایہ داروں نے اپنی پاکٹ یونین سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنے ادارے میں موجود ٹریڈ یونین کے مقابلے پر اپنی ایک یونین سرکاری اداروں کی بیورو کریسی نے تو کئی کئی مزدور یونین بنوادیں۔ آزادی کے بعد کل 75 رجسٹرڈ ٹریڈ یونین تھیں، کراچی پورٹ ٹرسٹ لیبر یونین 1919ء میں قائم ہوئی تھی۔ بیشتر یونین پاکستان بننے سے پہلے سے موجود تھیں۔ 1970ء میں مزدور یونینوں کی تعداد 2,522 سے زائد ہوگئی تھیں (صرف کراچی میں) اور 1977ء تک ان ٹریڈ یونین کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرگئیں تھیں۔
مشرقی پاکستان کے بننے کے بعد ملک میں بہت تیز تبدیلی پیدا ہوئی۔ پاکستان میں صنعتوں کے نام پر تمام ادارے جس میں مالیاتی صنعتی ادارے تو شامل تھے لیکن اس کے ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ جس کی وجہ سے صنعتی ارتقا بدترین بحران کا شکار ہوگیا۔ تعلیمی اداروں پر حملے کا مطلب بہت واضح ہوتا ہے کہ سرکار اپنے نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے کس طرح کے لوگ تیار کرے گی۔ آنے والی نئی نسل ہمارے سامنے ہے جو سیکڑوں حصوں میں تقسیم ہے۔ صنعت کاری سے متعلق تعلیمی ادارے ناپید ہوگئے پورا ملک ٹریڈ سینٹر بن گیا۔ بچا کچا پاکستان شدید صنعتی و مالی بحران کا شکار ہوا۔ پاکستان کے محنت کشوں کی بڑی تعداد کو مڈل ایسٹ کی تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب روانہ کردیا گیا۔ 50 لاکھ سے زائد پاکستانی محنت کش، ہنر مند، ڈاکٹر، انجینئرز آج مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں میں نظر آتے ہیں۔



1990ء کے بعد معیشت نے صنعتوں کو واپس (private) پرائیویٹ سیکٹر کی جانب بھیجا اور آزاد معیشت کھلی منڈی کی معیشت کا نام دیا۔ محنت کشوں میں کئی رجحانات پیدا ہوئے، محنت کشوں کا ایک حصہ مشرق وسطیٰ سے جڑ گیا۔ وہاں آپ کو مالی آسودگی نظر آتی ہے۔ دوسرا حصہ قومیائی گئی صنعتی مزدوروں کا ہے جو مالی طور پر کچھ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوگئے۔ تیسرا سرکاری ملازمین کا کرپٹ ترین حلقہ، لیکن یہ اتفاقات ہیں اورحادثات ہیں۔
پاکستان میں منشیات فروش بھی ایک کاروبار ہے زمینوں پر قبضہ، ٹرانسپورٹ پر قبضہ، تھانوں پر وردی پوشوں کا قبضہ۔ یہ سب کاروبار ہیں۔ لیکن یہ سب حادثاتی ہیں، ان کے سرپرستوں کی سرمایہ کاری ملک سے باہر ہے۔ مجموعی طور پر محنت کشوں کا بڑا حصہ بدترین بے روزگاری کا شکار ہے۔ آزاد منڈی کی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ وہ پہلے بحران پیدا کرتے ہیں پھر اس بحران کی خریداری کرتے ہیں۔ مثلاً کراچی میں دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں پر آپ ایک نظر ڈالیں۔ سرجانی پر حملہ، لوگ اپنے گھر چھوڑ کر بھاگے، جو انتہائی سَیتوں (سیتی) (کم) یعنی لاکھ دو لاکھ میں خرید لیے گئے جن کی قیمتیں آج کروڑ سے اوپر جا پہنچی ہے۔ بلکہ بعض علاقوں میں ان کی قیمتیں کروڑوں میں ہے۔ منشیات فروشوں کی تنظیموں نے شدید بحران پیدا کیا، انتہائی سستے ملازمین کو معمولی یومیہ اُجرت پر کام لے کر یا تو قتل کردیا، جیلوں میں بند، ملک سے فرار۔ اور ان علاقوں کی زمینوں، گھروں پر قبضے پھر ان کی خریداری اور اب ملٹی اسٹوری بنا کر فروخت کا سلسلہ۔ ایسا لگتا ہے پاکستان میں سب سے بڑا کاوبار منشیات اور زمینوں کی خریداری ہے اور یہ سب محب وطن ہیں۔ ’’اپنی جاں نظر کروں اپنی وفا پیش کروں‘‘۔



میں ایک تعلیمی ادارے میں انسانی حقوق کے حوالے سے طالب علموں سے مخاطب تھا۔ میں نے ایک سوال کیا کہ آپ میں سے سب کے پاس موبائل فون، اسمارٹ فون ہے۔ اس کے ذریعے ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے اپنے رشتے داروں سے براہِ راست گفتگو کررہے ہوتے ہیں ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں، اپنے رہائش گاہوں کا معائنہ، شہر کا نظارہ کررہے ہوتے ہیں، اسپورٹس کی سرگرمیاں، تعلیمی سرگرمیاں سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا کہ یہ کیا ہے؟ یہ کیسے ہورہا ہے، یہ سائنس کا کمال ہے، کیا ہے؟۔ حیران ہوں کہ 120 سے زائد کے ہاؤس میں ایک طالبہ نے کہا کہ ہاں میں نے سوچا تو ضرور تھا لیکن غور اب تک نہیں کیا۔ یہ سب ماسٹر کے طالب علم تھے۔ شہر میں گھما گھمی ہے ہر طرف ترانے بج رہے ہیں، پاکستان کا خوبصورت ’’ہلالی پرچم‘‘ برائے فروخت ہر دکان پر موجود ہے۔ جھنڈیاں گھروں کو سجانے کے لیے، بچوں کے لیے خوبصورت ہرے پرچم والی بنیانیں، کرتے، قمیض فروخت ہورہی ہیں۔ ہر طرف قومی ترانے بج رہے ہیں، پوری شب گزاری کا سامان موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ (غریب افراد یا محنت کش) بہت ہے بڑی خوشحالی ہے۔ آج جب دفتر سے نکل رہا تھا تو ایک نوجوان بھوکی نظروں سے میری جانب بڑھا۔ بھوکا بھی تھا اور گھر جانے کے لیے بس کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ وہ منشیات کا عادی بھی نہیں تھا۔ اس کی شکل، اس کا حلیہ بتارہا تھا کہ وہ بھوکا بھی ہے اور جھوٹ بھی نہیں بول رہا تھا۔ مجھے آج شام ناگن چورنگی پر ایک نوجوان کو نوجوانوں کے ہاتھوں پیٹتا دیکھ رہا تھا، ہر نوجوان اپنی موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کرتا اور آتے ہی اس نوجوان پر تھپڑوں، گھونسوں کی بارش کردیتا۔ جوش ملیح آبادی، آج تم بہت یاد آئے۔ کہ ہم اس گائے بھنبوں بھیڑوں کی مانند ہیں جو ایک بھیڑ کی مانند کسی ایک بیل بھینس کی سربراہی میں چلا جارہا ہے۔ جس کو پتا نہیں کہ وہ کدھر اور کیوں جارہا ہے۔